Surah

Information

Surah # 23 | Verses: 118 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 74 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَلَوِ اتَّبَعَ الۡحَـقُّ اَهۡوَآءَهُمۡ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالۡاَرۡضُ وَمَنۡ فِيۡهِنَّ‌ؕ بَلۡ اَتَيۡنٰهُمۡ بِذِكۡرِهِمۡ فَهُمۡ عَنۡ ذِكۡرِهِمۡ مُّعۡرِضُوۡنَؕ‏ ﴿71﴾
اگر حق ہی ان کی خواہشوں کا پیرو ہو جائے تو زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہرچیز درہم برہم ہو جائے حق تو یہ ہے کہ ہم نے انہیں ان کی نصیحت پہنچا دی ہے لیکن وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑنے والے ہیں ۔
و لو اتبع الحق اهواءهم لفسدت السموت و الارض و من فيهن بل اتينهم بذكرهم فهم عن ذكرهم معرضون
But if the Truth had followed their inclinations, the heavens and the earth and whoever is in them would have been ruined. Rather, We have brought them their message, but they, from their message, are turning away.
Agar haq hi inn ki khuwaishon ka pairo ho jaye to zamin-o-aasman aur inn kay darmiyan ki her cheez darhum barhum hojaye. Haq to yeh hai kay hum ney enhen unn ki naseehat phoncha di hai lekin woh apni naseehat say mun morney walay hain.
اور اگر حق ان کی خواہشات کے تابع ہوجاتا تو آسمان اور زمین اور ان میں بسنے والے سب برباد ہوجاتے ۔ نہیں ، بلکہ ہم ان کے پاس خود ان کے لیے نصیحت کا سامان لے کر آئے ہیں ، اور وہ ہیں کہ خود اپنی نصیحت سے منہ موڑے ہوئے ہیں ۔
اور اگر حق ( ف۱۱۵ ) ان کی خواہشوں کی پیروی کرتا ( ف۱۱٦ ) تو ضرور آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہیں سب تباہ ہوجاتے ( ف۱۱۷ ) بلکہ ہم تو ان کے پاس وہ چیز لائے ( ف۱۱۸ ) جس میں ان کی ناموری تھی تو وہ اپنی عزت سے ہی منہ پھیرے ہوئے ہیں ،
اور حق اگر کہیں ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین اور آسمان اور ان کی ساری آبادی کا نظام درہم برہم ہو جاتا 68 ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ، بلکہ ہم ان کا اپنا ہی ذکر ان کے پاس لائے ہیں اور وہ اپنے ذکر سے منہ موڑ رہے ہیں ۔ 69
اور اگر حق ( تعالیٰ ) ان کی خواہشات کی پیروی کرتا تو ( سارے ) آسمان اور زمین اور جو ( مخلوقات و موجودات ) ان میں ہیں سب تباہ و برباد ہو جاتے بلکہ ہم ان کے پاس وہ ( قرآن ) لائے ہیں جس میں ان کی عزت و شرف ( اور ناموری کا راز ) ہے سو وہ اپنی عزت ہی سے منہ پھیر رہے ہیں
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :68 اس مختصر سے جملے میں ایک بڑی بات کہی گئی ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ دنیا میں نادان لوگوں کی بالعموم یہ روش ہوتی ہے کہ جو شخص ان سے حق بات کہتا ہے وہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں ۔ گویا ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بات وہ کہی جائے جو ان کی خواہش کے مطابق ہو ، نہ کہ وہ جو حقیقت اور واقعہ کے مطابق ہو ۔ حالانکہ حقیقت بہرحال حقیقت ہی رہتی ہے خواہ وہ کسی کو پسند ہو یا ناپسند ۔ تمام دنیا کی متفقہ خواہش بھی کسی واقعہ کو غیر واقعہ اور کسی امر حق کو غیر حق نہیں بنا سکتی ، کجا کہ حقائق اور واقعات ایک ایک شخص کی خواہشات کے مطابق ڈھلا کریں اور ہر آن بے شمار متضاد خواہشوں سے ہم آہنگ ہوتے رہیں ۔ حماقت مآب ذہن کبھی یہ سوچنے کے زحمت گوارا نہیں کرتے کہ حقیقت اور ان کی خواہش کے درمیان اگر اختلاف ہے تو یہ قصور حقیقت کا نہیں بلکہ ان کے اپنے نفس کا ہے ۔ وہ اس کی مخالفت کر کے اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ، اپنا ہی کچھ بگاڑ لیں گے ۔ کائنات کا یہ عظیم الشان نظام جن اٹل حقائق اور قوانین پر مبنی ہے ان کے زیر سایہ رہتے ہوئے انسان کے لیے اس کے سوا کوئی ظاہر ہی نہیں ہے کہ اپنے خیالات ، خواہشات اور طرز عمل کو حقیقت کے مطابق بنائے ، اور اس غرض کے لیے ہر وقت دلیل ، تجربے اور مشاہدے سے یہ جاننے کی کوشش کرتا رہے کہ حقیقت نفس الامری کیا ہے ۔ صرف ایک بے وقوف ہی یہاں یہ طرز فکر و عمل اختیار کر سکتا ہے کہ جو کچھ وہ سمجھ بیٹھا ہے ، یا جو کچھ اس کا جی چاہتا ہے کہ ہو ، یا جو کچھ اپنے تعصبات کی بنا پر وہ فرض کر چکا ہے کہ ہے یا ہونا چاہیے ، اس پر جم کر رہ جائے اور اس کے خلاف کسی کی مضبوط سے مضبوط اور معقول سے معقول دلیل کو بھی سننا گوارا نہ کرے ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :69 یہاں لفظ ذکر کے تین معنی ممکن ہیں اور تینوں ہی صحیح بیٹھتے ہیں : 1 : ذکر بمعنی بیان فطرت ۔ اس لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم کسی دوسرے عالم کی باتیں نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان کی اپنی ہی حقیقت اور فطرت اور اس کے مقتضیات ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں ، تاکہ وہ اپنے اس بھولے ہوئے سبق کو یاد کریں ، مگر وہ اسے قبول کرنے سے کترا رہے ہیں ۔ ان کا یہ فرار کسی غیر متعلق چیز سے نہیں بلکہ اپنے ہی ذکر سے ہے ۔ 2 : ذکر بمعنیٰ نصیحت ۔ اس کی رو سے آیت کی تفسیر یہ ہو گی کہ جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے یہ ان ہی کے بھلے کے لیے ایک نصیحت ہے ، اور ان کا یہ فرار کسی اور چیز سے نہیں اپنی ہی بھلائی کی بات سے ہے ۔ 3 : ذکر بمعنی شرف و اعزاز ۔ اس معنی کو اختیار کیا جائے تو آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ ہم وہ چیز ان کے پاس لائے ہیں جسے یہ قبول کریں تو ان ہی کو عزت اور سرفرازی نصیب ہو گی ۔ اس سے ان کی یہ روگردانی کسی اور چیز سے نہیں ، اپنی ہی ترقی اور اپنے ہی اٹھان کے ایک زرین موقع سے رو گردانی ہے ۔