Surah

Information

Surah # 23 | Verses: 118 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 74 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنۡ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَهٗ مِنۡ اِلٰهٍ‌ اِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ اِلٰهٍۢ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعۡضُهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ‌ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يَصِفُوۡنَۙ‏ ﴿91﴾
نہ تو اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا اور نہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے ، ورنہ ہر معبود اپنی مخلوق کو لئے لئے پھرتا اور ہر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتا جو اوصاف یہ بتلاتے ہیں ان سے اللہ پاک ( اور بے نیاز ) ہے ۔
ما اتخذ الله من ولد و ما كان معه من اله اذا لذهب كل اله بما خلق و لعلا بعضهم على بعض سبحن الله عما يصفون
Allah has not taken any son, nor has there ever been with Him any deity. [If there had been], then each deity would have taken what it created, and some of them would have sought to overcome others. Exalted is Allah above what they describe [concerning Him].
Na to Allah ney kissi ko beta banaya aur na uss kay sath aur koi mabood hai werna her mabood apni makhlooq ko liye liye phirta aur her aik doosray per charh dorta. Jo osaaf yeh batlatay hain unn say Allah pak ( aur bey-niaz ) hai.
نہ تو اللہ نے کوئی بیٹا بنایا ہے ، اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوق کو لے کر الگ ہوجاتا ، اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھائی کردیتے ۔ ( ٢٩ ) پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں ۔
اللہ نے کوئی بچہ اختیار نہ کیا ( ف۱٤٤ ) اور نہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا خدا ( ف۱٤۵ ) یوں ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوق لے جاتا ( ف۱٤٦ ) اور ضرور ایک دوسرے پر اپنی تعلی چاہتا ( ف۱٤۷ ) پاکی ہے اللہ کو ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں ( ف۱٤۸ )
اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا ہے ، 84 اور کوئی دوسرا خدا اس کے ساتھ نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی خلق کو لے کر الگ ہو جاتا ، اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے ۔ 85 پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں ۔
اللہ نے ( اپنے لئے ) کوئی اولاد نہیں بنائی اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے ورنہ ہر خدا اپنی اپنی مخلوق کو ضرور ( الگ ) لے جاتا اور یقیناً وہ ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرتے ( اور پوری کائنات میں فساد بپا ہو جاتا ) ۔ اللہ ان باتوں سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :84 یہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ارشاد محض عیسائیت کی تردید میں ہے ۔ نہیں ، مشرکین عرب بھی اپنے معبودوں کو خدا کی اولاد قرار دیتے تھے ، اور دنیا کے اکثر مشرکین اس گمراہی میں ان کے شریک حال رہے ہیں ۔ چونکہ عیسائیوں کا عقیدہ ابن اللہ زیادہ مشہور ہو گیا ہے اس لیے بعض اکابر مفسرین تک کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ یہ آیت اسی کی تردید میں وارد ہوئی ہے ۔ حالانکہ ابتدا سے روئے سخن کفار مکہ کی طرف ہے اور آخر تک ساری تقریر کے مخاطب وہی ہیں ۔ اس سیاق و سباق میں یکایک عیسائیوں کی طرف کلام کا رخ پھر جانا بے معنی ہے ۔ البتہ ضمناً اس میں ان تمام لوگوں کے عقائد کی تردید ہو گئی ہے جو خدا سے اپنے معبودوں یا پیشواؤں کا نسب ملاتے ہیں ، خواہ وہ عیسائی ہوں یا مشرکین عرب یا کوئی اور ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :85 یعنی یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ کائنات کی مختلف قوتوں اور مختلف حصوں کے خالق اور مالک الگ الگ خدا ہوتے اور پھر ان کے درمیان ایسا مکمل تعاون ہوتا جیسا کہ تم اس پورے نظام عالم کی بے شمار قوتوں اور بے حد و حساب چیزوں میں ، اور ان گنت تاروں اور سیاروں میں پا رہے ہو ۔ نظام کی باقاعدگی اور اجزائے نظام کی ہم آہنگی اقتدار کی مرکزیت و وحدت پر خود دلالت کر رہی ہے ۔ اگر اقتدار بٹا ہوا ہوتا تو صاحب اقتدار میں اختلاف رونما ہونا یقیناً ناگزیر تھا ۔ اور یہ اختلاف ان کے درمیان جنگ اور تصادم تک پہنچے بغیر نہ رہ سکتا تھا ۔ یہی مضمون سورہ انبیاء میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ : لَوْ کَانَ فَیْھِمَآ اٰلِھَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا ، ( آیت 22 ) ۔ اگر زمین اور آسمان میں اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو دونوں کا نظام بگڑ جاتا ۔ اور یہی استدلال سورہ بنی اسرائیل میں گزر چکا ہے کہ : لَوْ کَانَ مَعَہ اٰلِھَۃٌ کَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلیٰ ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلاًO ( آیت 42 ) اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے ، جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں ، تو ضرور وہ مالک عرش کے مقام پر پہنچنے کی کوشش کرتے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، بنی اسرائیل ، حاشیہ 47 ۔ جلد سوم ، الانبیاء ، حاشیہ 22 ۔
وہ ہر شان میں بےمثال ہے اللہ تعالیٰ اس سے اپنی برتری بیان فرما رہا ہے کہ اس کی اولاد ہو یا اس کا شریک ہو ۔ ملک میں ، تصرف میں ، عبادت کا مستحق ہونے میں ، وہ یکتا ہے ، نہ اسکی اولاد ہے ، نہ اس کا شریک ہے ۔ اگر مان لیا جائے کہ کئی ایک اللہ ہیں تو ہر ایک اپنی مخلوق کامستقل مالک ہونا چاہے تو موجودات میں نظام قائم نہیں رہ سکتا ۔ حالانکہ کائنات کا انتظام مکمل ہے ، عالم علوی اور عالم سفلی ، آسمان وزمین وغیرہ کمال ربط کے ساتھ اپنے اپنے مقررہ کام میں مشغول ہیں ۔ دستور سے ایک انچ ادھر ادھر نہیں ہوتے ۔ پس معلوم ہوا کہ ان سب کا خالق مالک اللہ ایک ہی ہے نہ کہ متفرق کئی ایک اور بہت سے اللہ مان لینے کی صورت میں یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر ایک دوسرے کو پست ومغلوب کرنا اور خود غالب اور طاقتور ہونا چاہے گا ۔ اگر غالب آگیا تو مغلوب اللہ نہ رہا اگر غالب نہ آیا تو وہ خود اللہ نہیں ۔ پس یہ دونوں دلیلیں بتا رہی ہیں کہ اللہ ایک ہی ہے ۔ متکلمین کے طور پر اس دلیل کو دلیل تمانع کہتے ہیں ۔ ان کی تقریر یہ ہے کہ اگر دو اللہ مانے جائیں یا اس سے زیادہ پھر ایک تو ایک جسم کی حرکت کا ارادہ کرلے اور دوسرا اس کے سکون کا ارادہ کرے اب اگر دونوں کی مراد حاصل نہ ہو تو دونوں ہی عاجز ٹھہرے اور جب عاجز ٹھہرے تو اللہ نہیں ہوسکتے ۔ کیونکہ واجب عاجز نہیں ہوتا ۔ اور یہ بھی ناممکن ہے کہ دونوں کی مراد پوری ہو کیونکہ ایک کے خلاف دوسرے کی چاہت ہے ۔ تو دونوں کی مراد کا حاصل ہونامحال ہے ۔ اور یہ محال لازم ہوا ہے اس وجہ سے کہ دو یا دو سے زیادہ اللہ فرض کئے گئے تھے پس یہ تعدد میں باطل ہوگیا ۔ اب رہی تیسری صورت یعنی یہ کہ ایک کی چاہت پوری ہو اور ایک کی نہ ہو تو جس کی پوری ہوئی وہ تو غالب اور واجب رہا اور جس کی پوری نہ ہوئی اور مغلوب اور ممکن ہوا ۔ کیونکہ واجب کی صفت یہ نہیں کہ وہ مغلوب ہو تو اس صورت میں بھی معبودوں کی کثرت تعداد باطل ہوتی ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ اللہ ایک ہے وہ ظالم سرکش ، حد سے گزر جانے والے ، مشرک جو اللہ کی اولاد ٹھراتے ہیں اور اس کے شریک بتاتے ہیں ، ان کے ان بیان کردہ اوصاف سے ذات الٰہی بلند وبالا اور برتر و منزہ ہے ۔ وہ ہر چیز کو جانتا ہے جو مخلوق سے پوشیدہ ہے ۔ اور اسے بھی جو مخلوق پر عیاں ہے ۔ پس وہ ان تمام شرکا سے پاک ہے ، جسے منکر اور مشرک شریک اللہ بتاتے ہیں ۔ آیت ( رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِيْ فِي الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ 94؀ ) 23- المؤمنون:94 )