سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :87
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذاللہ اس عذاب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبتلا ہو جانے کا فی الواقع کوئی خطرہ تھا ، یا یہ کہ اگر آپ یہ دعا نہ مانگتے تو اس میں مبتلا ہو جاتے ۔ بلکہ اس طرح کا انداز بیان یہ تصور دلانے کے لیے اختیار کیا گیا ہے کہ خدا کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق چیز ۔ وہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا مطالبہ کیا جائے ، اور اگر اللہ اپنی رحمت اور اپنے حلم کی وجہ سے اس کے لانے میں دیر کرے تو اطمینان کے ساتھ شرارتوں اور نافرمانیوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے ۔ درحقیقت وہ ایسی خوفناک چیز ہے کہ گناہ گاروں ہی کو نہیں ، نیکوکاروں کو بھی اپنی ساری نیکیوں کے با وجود اس سے پناہ مانگنی چاہیے ۔ علاوہ بریں اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اجتماعی گناہوں کی پاداش میں جب عذاب کی چکی چلتی ہے تو صرف برے لوگ ہی اس میں نہیں پستے ، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ بھلے لوگ بھی بسا اوقات لپیٹ میں آ جاتے ہیں ۔ لہٰذا ایک گمراہ اور بدکار معاشرے میں رہنے والے ہر نیک آدمی کو ہر وقت خدا کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے ۔ کچھ خبر نہیں کہ کب کس صورت میں ظالموں پر قہر الٰہی کا کوڑا برسنا شروع ہو جائے اور کون اس کی زد میں آ جائے ۔