Surah

Information

Surah # 23 | Verses: 118 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 74 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
حَتّٰٓى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ رَبِّ ارۡجِعُوۡنِۙ‏ ﴿99﴾
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے ۔
حتى اذا جاء احدهم الموت قال رب ارجعون
[For such is the state of the disbelievers], until, when death comes to one of them, he says, "My Lord, send me back
Yahan tak kay jab inn mein say kissi ko maut aaney lagti hai to kehta hai aey meray perwerdigar! Mujhay wapis lota dey.
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی پر موت آکھڑی ہوگی تو وہ کہے گا کہ : میرے پروردگار ! مجھے واپس بھیج دیجیے ۔
یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آئے ( ف۱۵۵ ) تو کہتا ہے کہ اے میرے رب مجھے واپس پھر دیجئے ، ( ف۱۵٦ )
﴿یہ لوگ اپنی کرنی سے باز نہ آئیں گے﴾ یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آجائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ ” اے میرے رب ، مجھے اسی دنیا میں واپس بھیج دیجیے 89
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آجائے گی ( تو ) وہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے ( دنیا میں ) واپس بھیج دے
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :89 اصل میں رَبِّ ارْجِعُوْنِ کے الفاظ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو خطاب کر کے جمع کے صیغے میں درخواست کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ یہ تعظیم کے لیے ہو ، جیسا کہ تمام زبانوں میں طریقہ ہے ۔ اور دوسری وجہ بعض لوگوں نے یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ لفظ تکرار دعا کا تصور دلانے کے لیے ہے ، یعنی وہ اِرْجِعْنِیْ اِرْجِعْنِیْ ( مجھے واپس بھیج دے ، مجھے واپس بھیج دے ) کا مفہوم ادا کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ بعض مفسرین نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ رَبِّ کا خطاب اللہ تعالیٰ سے ہے اور ارْجِعُوْنِ کا خطاب ان فرشتوں سے جو اس مجرم روح کو گرفتار کر کے لیے جا رہے ہوں گے ۔ یعنی بات یوں ہے : ہائے میرے رب ، مجھ کو واپس کرو ۔
بعد از مرگ بیان ہو رہا ہے کہ موت کے وقت کفار اور بدترین گناہگار سخت نادم ہوتے ہیں اور حسرت وافسوس کے ساتھ آرزو کرتے ہیں کہ کاش کہ ہم دنیا کی طرف لوٹائے جائیں ۔ تاکہ ہم نیک اعمال کرلیں ۔ لیکن اس وقت وہ امید فضول یہ آرزو لاحاصل ہے چنانچہ سورۃ منافقون میں فرمایا جو ہم نے دیا ہے ہماری راہ میں دیتے رہو ، اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کی موت آجائے اس وقت وہ کہے کہ اے اللہ ذرا سی مہلت دے دے تو میں صدقہ خیرات کرلوں اور نیک بندہ بن جاؤں لیکن اجل آجانے کے بعد کسی کو مہلت نہیں ملتی تمہارے تمام اعمال سے اللہ تعالیٰ خبردار ہے اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ مثلا آیت ( وَاَنْذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَاْتِيْهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَآ اَخِّرْنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ ۙنُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ۭ ) 14- ابراهيم 44 ) اور آیت ( يَوْمَ يَاْتِيْ تَاْوِيْلُهٗ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ۚ فَهَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَاۗءَ فَيَشْفَعُوْا لَنَآ اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ ۭقَدْ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ 53؀ۧ ) 7- الاعراف:53 ) اور آیت ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ 12 ؀ ) 32- السجدة:12 ) تک اور آیت ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلٰي رَبِّهِمْ ۭقَالَ اَلَيْسَ هٰذَا بِالْحَقِّ ۭ قَالُوْا بَلٰى وَرَبِّنَا ۭقَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ 30؀ۧ ) 6- الانعام:30 ) تک اور آیت ( وَتَرَى الظّٰلِمِيْنَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ يَقُوْلُوْنَ هَلْ اِلٰى مَرَدٍّ مِّنْ سَبِيْلٍ 44؀ۚ ) 42- الشورى:44 ) تک اور آیت ( قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَاَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَهَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِيْلٍ 11؀ ) 40-غافر:11 ) اور اس کے بعد کی آیت ( وَهُمْ يَصْطَرِخُوْنَ فِيْهَا ۚ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ ۭ اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاۗءَكُمُ النَّذِيْرُ ۭ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ 37؀ۧ ) 35- فاطر:37 ) وغیرہ ان آیتوں میں بیان ہوا ہے کہ ایسے بدکار لوگ موت کو دیکھ کر قیامت کے دن اللہ کے سامنے کی پیشی کے وقت جہنم کے سامنے کھڑے ہوکر دنیا میں واپس آنے کی تمنا کریں گے اور نیک اعمال کرنے کا وعدہ کریں گے ۔ لیکن ان وقتوں میں ان کی طلب پوری نہ ہوگی ۔ یہ تو وہ کلمہ ہے جو بہ مجبوری ایسے آڑے وقتوں میں ان کی زبان سے نکل ہی جاتا ہے اور یہ بھی کہ یہ کہتے ہیں مگر کرنے کے نہیں ۔ اگر دنیا میں واپس لوٹائے بھی جائیں تو عمل صالح کرکے نہیں دینے کے بلکہ ویسے ہی رہیں گے جسے پہلے رہے تھے یہ تو جھوٹے اور لپاڑئیے ہیں کتنا مبارک وہ شخص ہے جو اس زندگی میں نیک عمل کرلے اور کیسے بدنصیب یہ لوگ ہیں کہ آج نہ انہیں مال واولاد کی تمنا ہے ۔ نہ دنیا اور زینت دنیا کی خواہش ہے صرف یہ چاہتے ہیں کہ دو روز کی زندگی اور ہوجائے تو کچھ نیک اعمال کرلیں لیکن تمنا بیکار ، آرزو بےسود ، خواہش بےجا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ان کی تمنا پر انہیں اللہ ڈانٹ دے گا اور فرمائے گا کہ یہ بھی تمہاری بات ہے عمل اب بھی نہیں کروگے ۔ حضرت علا بن زیاد رحمتہ اللہ علیہ کیا ہی عمدہ بات فرماتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں ، تم یوں سمجھ لو کہ میری موت آچکی تھی ، لیکن میں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے چند روز کی مہلت دے دی جائے تاکہ میں نیکیاں کرلوں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کافر کی اس امید کو یاد رکھو اور خود زندگی کی گھڑیاں اطاعت اللہ میں بسر کرو ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جب کافر اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اپنا جہنم کا ٹھکانا دیکھ لیتا ہے تو کہتا ہے میرے رب مجھے لوٹا دے میں توبہ کرلوں گا اور نیک اعمال کرتا رہوں گا جواب ملتا ہے کہ جتنی عمر تجھے دی گئی تھی تو ختم کرچکا پھر اس کی قبر اس پر سمٹ جاتی ہے اور تنگ ہوجاتی ہے اور سانپ بچھو چمٹ جاتے ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں گناہگاروں پر ان کی قبریں بڑی مصیبت کی جگہیں ہوتی ہیں ان کی قبروں میں انہیں کالے ناگ ڈستے رہتے ہیں جن میں سے ایک بہت بڑا اس کے سرہانے ہوتا ہے ایک اتنا ہی بڑا پاؤں کی طرف ہوتا ہے وہ سر کی طرف سے ڈسنا اور اوپر چڑھنا شروع کرتا ہے اور یہ پیروں کی طرف سے کاٹنا اور اوپر چڑھنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ بیچ کی جگہ آکر دونوں اکٹھے ہوجاتے ہیں پس یہ ہے وہ برزخ جہاں یہ قیامت تک رہیں گے من ورائہم کہ معنی کئے گے ہیں کہ ان کے آگے برزخ ایک حجاب اور آڑ ہے دنیا اور آخرت کے درمیان وہ نہ تو صحیح طور دنیا میں ہیں کہ کھائیں پیئں نہ آخرت میں ہیں کہ اعمال کے بدلے میں آجائیں بلکہ بیچ ہی بیچ میں ہیں پس اس آیت میں ظالموں کو ڈرایا جارہا ہے کہ انہیں عالم برزخ میں بھی بڑے بھاری عذاب ہوں گے جیسے فرمان ہے آیت ( مِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ جَهَنَّمُ ۚ وَلَا يُغْنِيْ عَنْهُمْ مَّا كَسَبُوْا شَيْـــــًٔا وَّلَا مَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِيَاۗءَ ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ 10۝ۭ ) 45- الجاثية:10 ) ان کے آگے جہنم ہے اور آیت میں ہے ( وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهٖ عَذَابٌ غَلِيْظٌ 17؀ ) 14- ابراھیم:17 ) ان کے آگے سخت عذاب ہے برزخ کا ۔ قبر کا یہ عذاب ان پر قیامت کے قائم ہونے تک برابر جاری رہے گا ۔ جیسے حدیث میں ہے کہ وہ اس میں برابر عذاب میں رہے گا یعنی زمین میں ۔