Surah

Information

Surah # 23 | Verses: 118 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 74 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
لَعَلِّىۡۤ اَعۡمَلُ صَالِحًـا فِيۡمَا تَرَكۡتُ‌ؕ كَلَّا‌ ؕ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآٮِٕلُهَا‌ؕ وَمِنۡ وَّرَآٮِٕهِمۡ بَرۡزَخٌ اِلٰى يَوۡمِ يُبۡعَثُوۡنَ‏ ﴿100﴾
کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جاکر نیک اعمال کرلوں ہرگز ایسا نہیں ہوگا یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے ان کے پس پشت تو ایک حجاب ہے ، ان کے دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک ۔
لعلي اعمل صالحا فيما تركت كلا انها كلمة هو قاىلها و من وراىهم برزخ الى يوم يبعثون
That I might do righteousness in that which I left behind." No! It is only a word he is saying; and behind them is a barrier until the Day they are resurrected.
Kay apni chori hui duniya mein jaa ker nek aemaal ker loon hergiz aisa nahi hoga yeh to sirf aik qol hai jiss ka yeh qaeel hai inn kay pas-e-pusht to aik hijab hai inn kay doobara ji uthney kay din tak.
تاکہ جس دنیا کو میں چھوڑ کر آیا ہوں ، اس میں جاکر نیک عمل کروں ۔ ہرگز نہیں ! یہ تو ایک بات ہی بات ہے جو وہ زبان سے کہہ رہا ہے ، اور ان ( مرنے والوں ) کے سامنے عالم برزخ کی آڑ ہے ۔ ( ٣١ ) جو اس وقت تک قائم رہے گی جب تک ان کو دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے ۔
شاید اب میں کچھ بھلائی کماؤں اس میں جو چھوڑ آیا ہوں ( ف۱۵۷ ) ہشت یہ تو ایک بات ہے جو وہ اپنے منہ سے کہتا ہے ( ف۱۵۸ ) اور ان کے آگے ایک آڑ ہے ( ف۱۵۹ ) اس دن تک جس دن اٹھائے جائیں گے ،
جسے میں چھوڑ آیا ہوں ، امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا 90 ” ۔ ۔ ۔ ۔ ہرگز نہیں ، 91 یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ بک رہا ہے ۔ 92 اب ان سب﴿مرنے والوں﴾ کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک ۔ 93
تاکہ میں اس ( دنیا ) میں کچھ نیک عمل کر لوں جسے میں چھوڑ آیا ہوں ۔ ہر گز نہیں ، یہ وہ بات ہے جسے وہ ( بطورِ حسرت ) کہہ رہا ہوگا اور ان کے آگے اس دن تک ایک پردہ ( حائل ) ہے ( جس دن ) وہ ( قبروں سے ) اٹھائے جائیں گے
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :90 یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے کہ مجرمین موت کی سرحد میں داخل ہونے کے وقت سے لے کر آخرت میں واصل بجہنم ہونے تک ، بلکہ اس کے بعد بھی ، بار بار یہی درخواستیں کرتے رہیں گے کہ ہمیں بس ایک دفعہ دنیا میں اور بھیج دیا جائے ، اب ہماری توبہ ہے ، اب ہم کبھی نافرمانی نہیں کریں گے ، اب ہم سیدھی راہ چلیں گے ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الانعام ، آیات 27 ۔ 28 ۔ الاعراف ، 53 ۔ ابراہیم ، 44 ، 45 ۔ مومنون ، 105 تا 115 ۔ الشعراء ، 102 ۔ السجدہ ، 12 تا 14 ۔ فاطر ، 37 ۔ الزمر ، 58 ۔ 59 ۔ المومن ، 10 تا 12 ۔ الشوریٰ ، 44 ۔ مع حواشی ) ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :91 یعنی اس کو واپس نہیں بھیجا جائے گا ۔ از سرنو عمل کرنے کے لیے کوئی دوسرا موقع اب اسے نہیں دیا جا سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں دوبارہ امتحان کے لیے آدمی کو اگر واپس بھیجا جائے تو لامحالہ دو صورتوں میں سے ایک ہی صورت اختیار کرنی ہو گی ۔ یا تو اس کے حافظے اور شعور میں وہ سب مشاہدے محفوظ ہوں جو مرنے کے بعد اس نے کیے ۔ یا ان سب کو محو کر کے اسے پھر ویسا ہی خالی الذہن پیدا کیا جائے جیسا وہ پہلی زندگی میں تھا ۔ اول الذکر سورت میں امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ اس دنیا میں تو آدمی کا امتحان ہے ہی اس بات کا کہ وہ حقیقت کا مشاہدہ کیے بغیر اپنی عقل سے حق کو پہچان کر اسے مانتا ہے یا نہیں ، اور طاعت و معصیت کی آزادی رکھتے ہوئے ان دونوں راہوں میں سے کس راہ کو انتخاب کرتا ہے ۔ اب اگر اسے حقیقت کا مشاہدہ بھی کرا دیا جائے اور معصیت کا انجام عملاً دکھا کر معصیت کے انتخاب کی راہ بھی اس پر بند کر دی جائے تو پھر امتحان گاہ میں اسے بھیجنا فضول ہے اس کے بعد کون ایمان نہ لائے گا اور کون طاعت سے منہ موڑ سکے گا ۔ رہی دوسری صورت ، تو یہ آزمودہ را آزمودن کا ہم معنی ہے جو شخص ایک دفعہ اسی امتحان میں ناکام ہو چکا ہے اسے پھر بعینہ ویسا ہی ایک اور امتحان دینے کے لیے بھیجنا لاحاصل ہے ، کیونکہ وہ پھر وہی کچھ کرے گا جیسا پہلے کر چکا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ 228 ۔ الانعام ، حواشی 6 ۔ 139 ۔ 140 ۔ جلد دوم ، یونس ، حاشیہ 26 ) ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :92 یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تو اب اسے کہنا ہی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس کی یہ بات قابل التفات نہیں ہے ۔ شامت آ جانے کے بعد اب وہ یہ نہ کہے گا تو اور کیا کہے گا ۔ مگر یہ محض کہنے کی بات ہے ۔ پلٹے گا تو پھر وہی کچھ کرے گا جو کر کے آیا ہے ۔ لہٰذا اسے بکنے دو ۔ واپسی کا دروازہ اس پر نہیں کھولا جا سکتا ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :93 برزخ فارسی لفظ پردہ کا معرب ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کے اور دنیا کے درمیان ایک روک ہے جو انہیں واپس جانے نہیں دے گی ، اور قیامت تک یہ دنیا اور آخرت کے درمیان کی اس حد فاصل میں ٹھہرے رہیں گے ۔