سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :98
یعنی اپنی رہائی کے لیے کوئی عرض معروض نہ کرو ۔ اپنی معذرتیں پیش نہ کرو ۔ یہ مطلب نہیں ہے ہمیشہ کے لیے بالکل چپ ہو جاؤ ۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ ان کا آخری کلام ہوگا جس کے بعد ان کی زبانیں ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گی ۔ مگر یہ بات بظاہر قرآن کے خلاف پڑتی ہے کیونکہ آگے خود قرآن ہی ان کی اور اللہ تعالیٰ کی گفتگو نقل کر رہا ہے ۔ لہٰذا یا تو یہ روایات غلط ہیں ، یا پھر ان کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد وہ رہائی کے لیے کوئی عرض معروض نہ کر سکیں گے ۔