Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَـيَسۡتَخۡلِفَـنَّهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ كَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمۡ دِيۡنَهُمُ الَّذِى ارۡتَضٰى لَهُمۡ وَلَـيُبَدِّلَــنَّهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِهِمۡ اَمۡنًا‌ ؕ يَعۡبُدُوۡنَنِىۡ لَا يُشۡرِكُوۡنَ بِىۡ شَيۡــًٔــا‌ ؕ وَمَنۡ كَفَرَ بَعۡدَ ذٰ لِكَ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ‏ ﴿55﴾
تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالٰی وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وہ پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف و خطر کو وہ امن امان سے بدل دے گا ، وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں ۔
وعد الله الذين امنوا منكم و عملوا الصلحت ليستخلفنهم في الارض كما استخلف الذين من قبلهم و ليمكنن لهم دينهم الذي ارتضى لهم و ليبدلنهم من بعد خوفهم امنا يعبدونني لا يشركون بي شيا و من كفر بعد ذلك فاولىك هم الفسقون
Allah has promised those who have believed among you and done righteous deeds that He will surely grant them succession [to authority] upon the earth just as He granted it to those before them and that He will surely establish for them [therein] their religion which He has preferred for them and that He will surely substitute for them, after their fear, security, [for] they worship Me, not associating anything with Me. But whoever disbelieves after that - then those are the defiantly disobedient.
Tum mein say unn logon say jo eman laye hain aur nek aemaal kiye hain Allah Taalaa wada farma chuka hai kay unhen zaroor zamin mein khalifa banaye ga jaisay kay unn logon ko khalifa banaya tha jo inn say pehlay thay aur yaqeenan inn kay liye inn kay iss deen ko mazbooti kay sath mohkum ker kay jama dey ga jissay unn kay liye woh pasand farma chuka hai aur inn kay iss khof-o-khatar ko woh aman-o-amaan mein badal dey ga woh meri ibadat keren gay meray sath kissi ko bhi shareek na therayen gay. Iss kay baad bhi jo log na-shukri aur kufur keren yaqeenan fasiq hain.
تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ، ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا ، جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا ، اور ان کے لیے اس دین کو ضرور اقتدار بخشے گا جسے ان کے لیے پسند کیا ہے ، اور ان کو جو خوف لاحق رہا ہے ، اس کے بدلے انہیں ضرور امن عطا کرے گا ۔ ( بس ) وہ میری عبادت کریں ، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں ۔ اور جو لوگ اس کے بعد بھی ناشکری کریں گے تو ایسے لوگ نافرمان ہوں گے ۔ ( ٤١ )
اللہ نے وعدہ دیا ان کو جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے کام کیے ( ف۱۲۵ ) کہ ضرور انھیں زمین میں خلافت دے گا ( ف۱۲٦ ) جیسی ان سے پہلوں کو دی ( ف۱۲۷ ) اور ضرور ان کے لیے جمادے گا ان کا وہ دین جو ان کے لیے پسند فرمایا ہے ( ف۱۲۸ ) اور ضرور ان کے اگلے خوف کو امن سے بدل دے گا ( ف۱۲۹ ) میری عبادت کریں میرا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں ، اور جو اس کے بعد ناشکری کرے تو وہی لوگ بےحکم ہیں ،
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے ، ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالے نے ان کے حق میں پسند کیا ہے ، اور ان کی ﴿موجودہ ﴾ خوف کی حالت کو امن سے بدل دے گا ، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ 83 اور جو اس کے بعد کفر کرے 84 تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں ۔
اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے ( جس کا ایفا اور تعمیل امت پر لازم ہے ) جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت ( یعنی امانتِ اقتدار کا حق ) عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو ( حقِ ) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لئے ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے ( غلبہ و اقتدار کے ذریعہ ) مضبوط و مستحکم فرما دے گا اور وہ ضرور ( اس تمکّن کے باعث ) ان کے پچھلے خوف کو ( جو ان کی سیاسی ، معاشی اور سماجی کمزوری کی وجہ سے تھا ) ان کے لئے امن و حفاظت کی حالت سے بدل دے گا ، وہ ( بے خوف ہو کر ) میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ( یعنی صرف میرے حکم اور نظام کے تابع رہیں گے ) ، اور جس نے اس کے بعد ناشکری ( یعنی میرے احکام سے انحراف و انکار ) کو اختیار کیا تو وہی لوگ فاسق ( و نافرمان ) ہوں گے
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :83 جیسا کہ اس سلسلہ کلام کے آغاز میں ہم اشارہ کر چکے ہیں ، اس ارشاد سے مقصود منافقین کو متنبہ کرنا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو خلافت عطا فرمانے کا جو وعدہ کیا ہے اس کے مخاطب محض مردم شماری کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو صادق الایمان ہوں ، اخلاق اور اعمال کے اعتبار سے صالح ہوں ، اللہ کے پسندیدہ دین کا اتباع کرنے والے ہوں ، اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو کر خالص اللہ کی بندگی و غلامی کے پابند ہوں ۔ ان صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ نہ اس وعدے کے اہل ہیں اور نہ یہ ان سے کیا ہی گیا ہے ۔ لہٰذا وہ اس میں حصہ دار ہونے کی توقع نہ رکھیں ۔ بعض لوگ خلافت کو محض حکومت و فرمانروائی اور غلبہ و تمکن کے معنی میں لے لیتے ہیں ، پھر اس آیت سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس کو بھی دنیا میں یہ چیز حاصل ہے وہ مومن اور صالح اور اللہ کے پسندیدہ دین کا پیرو اور بندگی حق پر عامل اور شرک سے مجتنب ہے ، اور اس پر مزید ستم یہ ڈھاتے ہیں کہ اپنے اس غلط نتیجے کو ٹھیک بٹھانے کے لیے ایمان ، صلاح ، دین حق ، عبادت الٰہی اور شرک ، ہر چیز کا مفہوم بدل کر وہ کچھ بنا ڈالتے ہیں جو ان کے اس نظریے کے مطابق ہو ۔ یہ قرآن کی بد ترین معنوی تحریف ہے جو یہود و نصاریٰ کی تحریفات سے بھی بازی لے گئی ہے ۔ اس نے قرآن کی ایک آیت کو وہ معنی پہنا دیے ہیں جو پورے قرآن کی تعلیم کو مسخ کر ڈالتے ہیں اسلام کی کسی ایک چیز کو بھی اس کی جگہ پر باقی نہیں رہنے دیتے ۔ خلافت کی اس تعریف کے بعد لا محالہ وہ سب لوگ اس آیت کے مصداق بن جاتے ہیں جنہوں نے کبھی دنیا میں غلبہ و تمکن پایا ہے یا آج پائے ہوئے ہیں ، خواہ وہ خدا ، وحی ، رسالت ، آخرت ہر چیز کے منکر ہوں اور فسق و فجور کی ان تمام آلائشوں میں بری طرح لتھڑے ہوئے ہوں جنہیں قرآن نے کبائر قرار دیا ہے ، جیسے سود ، زنا ، شراب اور جوا ۔ اب اگر یہ سب لوگ مومن صالح ہیں اور اسی لیے خلافت کے منصب عالی پر سرفراز کیے گئے ہیں تو پھر ایمان کے معنی قوانین طبیعی کو ماننے ، اور صلاح کے معنی ان قوانین کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتے ہیں ؟ اور اللہ کا پسندیدہ دین اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ علوم طبعی میں کمال حاصل کر کے صنعت و حرفت اور تجارت و سیاست میں خوب ترقی کی جائے ؟ اور اللہ کی بندگی کا مطلب پھر اس کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے کہ ان قاعدوں اور ضابطوں کی پابندی کی جائے جو انفرادی اور اجتماعی سعی و جہد کی کامیابی کے لیے فطرتاً مفید اور ضروری ہیں ؟ اور شرک پھر اس کے سوا اور کس چیز کا نام رہ جاتا ہے کہ ان مفید قواعد و ضوابط کے ساتھ کوئی شخص یا قوم کچھ نقصان دہ طریقے بھی اختیار کر لے ؟ مگر کیا کوئی شخص جس نے کھلے دل اور کھلی آنکھوں سے کبھی قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہو ، یہ مان سکتا ہے کہ قرآن میں واقعی ، ایمان اور عمل صالح اور دین حق اور عبادت الٰہی اور توحید اور شرک کے یہی معنی ہیں ؟ یہ معنی یا تو وہ شخص لے سکتا ہے جس نے کبھی پورا قرآن سمجھ کر نہ پڑھا ہو اور صرف کوئی آیت کہیں سے اور کوئی کہیں سے لے کر اس کو اپنے نظریات و تصورات کے مطابق ڈھال لیا ہو ، یا پھر وہ شخص یہ حرکت کر سکتا ہے جو قرآن کو پڑھتے ہوئے ان سب آیات کو اپنے زعم میں سراسر لغو اور غلط قرار دیتا چلا گیا ہو جن میں اللہ تعالیٰ کو واحد رب اور الٰہٰ ، اور اس کی نازل کردہ وحی کو واحد ذریعۂ ہدایت ، اور اس کے مبعوث کردہ ہر پیغمبر کو حتمی طور پر واجب الاطاعت رہنما تسلیم کرنے کی دعوت دی گئی ہے ، اور موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمے پر ایک دوسری زندگی کے محض مان لینے ہی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی صاف صاف کہا گیا ہے کہ جو لوگ اس زندگی میں اپنی جواب دہی کے تخیل سے منکر یا خالی الذہن ہو کر محض اس دنیا کی کامیابیوں کو مقصود سمجھتے ہوئے کام کریں گے وہ فلاح سے محروم رہیں گے ۔ قرآن میں ان مضامین کو اس قدر کثرت سے اور ایسے مختلف طریقوں سے اور ایسے صریح و صاف الفاظ میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ ہمارے لیے یہ باور کرنا مشکل ہے کہ اس کتاب کو ایمانداری کے ساتھ پڑھنے والا کوئی شخص کبھی ان غلط فہمیوں میں بھی پڑ سکتا ہے جن میں آیت استخلاف کے یہ نئے مفسرین مبتلا ہوئے ہیں ۔ حالانکہ لفظ خلافت و استخلاف کے جس معنی پر انہوں نے یہ ساری عمارت کھڑی کی ہے وہ ان کا اپنا گھڑا ہوا ہے ، قرآن کا جاننے والا کوئی شخص اس آیت میں وہ معنی کبھی نہیں لے سکتا ۔ قرآن دراصل خلافت اور استخلاف کو تین مختلف معنوں میں استعمال کرتا ہے اور ہر جگہ سیاق و سباق سے پتہ چل جاتا ہے کہ کہاں کس معنی میں یہ لفظ بو لا گیا ہے : اس کے ایک معنی ہیں خدا کے دیے ہوئے اختیارات کا حامل ہونا اس معنی میں پوری اولاد آدم زمین میں خلیفہ ہے ۔ دوسرے معنی ہیں خدا کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے امر شرعی ( نہ کہ محض امر تکوینی ) کے تحت اختیارات خلافت کو استعمال کرنا ۔ اس معنی میں صرف مومن صالح ہی خلیفہ قرار پاتا ہے ، کیونکہ وہ صحیح طور پر خلافت کا حق ادا کرتا ہے ۔ اور اس کے برعکس کافر و فاسق خلیفہ نہیں بلکہ باغی ہے ، کیونکہ وہ مالک کے ملک میں اس کے دیے ہوئے اختیارات کو نافرمانی کے طریقے پر استعمال کرتا ہے ۔ تیسرے معنی ہیں ایک دور کی غالب قوم کے بعد دوسری قوم کا اس کی جگہ لینا ۔ پہلے دونوں معنی خلافت بمعنی نیابت سے ماخوذ ہیں ، اور یہ آخری معنی خلافت بمعنی جانشینی سے ماخوذ ۔ اور اس لفظ کے یہ دونوں معنی لغت عرب میں معلوم و معروف ہیں ۔ اب جو شخص بھی یہاں اس سیاق و سباق میں آیت استخلاف کو پڑھے گا وہ ایک لمحہ کے لیے بھی اس امر میں شک نہیں کر سکتا کہ اس جگہ خلافت کا لفظ اس حکومت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو اللہ کے امر شرعی کے مطابق ( نہ کہ محض قوانین فطرت کے مطابق ) اس کی نیابت کا ٹھیک ٹھیک حق ادا کرنے والی ہو ۔ اسی لیے کفار تو درکنار ، اسلام کا دعویٰ کرنے والے منافقوں تک کو اس وعدے میں شریک کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے ۔ اسی لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اس کے مستحق صرف ایمان اور عمل صالح کی صفات سے متصف لوگ ہیں اسی لیے قیام خلافت کا ثمرہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کا پسند کردہ دین ، یعنی اسلام ، مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے گا ۔ اور اسی لیے اس انعام کو عطا کرنے کی شرط یہ بتائی جا رہی ہے کہ خالص اللہ کی بندگی پر قائم رہو جس میں شرک کی ذرہ برابر آمیزش نہ ہونے پائے ۔ اس وعدے کو یہاں سے اٹھا کر بین الاقوامی چوراہے پر لے پہنچنا اور امریکہ سے لے کر روس تک جس کی کبریائی کا ڈنکا بھی دنیا میں بج رہا ہو اس کے حضور اسے نذر کر دینا جہالت کی طغیانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ یہ سب طاقتیں بھی اگر خلافت کے منصب عالی پر سرفراز ہیں تو آخر فرعون اور نمرود ہی نے کیا قصور کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں لعنت کا مستحق قرار دیا ؟ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، الانبیاء ، حاشیہ 99 ) ۔ اس جگہ ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے ۔ یہ وعدہ بعد کے مسلمانوں کو تو بالواسطہ پہنچتا ہے ۔ بلا واسطہ اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں موجود تھے ۔ وعدہ جب کیا گیا تھا اس وقت واقعی مسلمانوں پر حالت خوف طاری تھی اور دین اسلام نے ابھی حجاز کی زمین میں بھی مضبوط جڑ نہیں پکڑی تھی ۔ اس کے چند سال بعد یہ حالت خوف نہ صرف امن سے بدل گئی بلکہ اسلام عرب سے نکل کر ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر چھا گیا اور اس کی جڑیں اپنی پیدائش کی زمین ہی میں نہیں ، کرۂ زمین میں جم گئیں ۔ یہ اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ ابو بکر صدیق ، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پورا کر دیا ۔ اس کے بعد کوئی انصاف پسند آدمی مشکل ہی سے اس امر میں شک کر سکتا ہے کہ ان تینوں حضرات کی خلافت پر خود قرآن کی مہر تصدیق لگی ہوئی ہے اور ان کے مومن صالح ہونے کی شہادت اللہ تعالیٰ خود دے رہا ہے ۔ اس میں اگر کسی کو شک ہو تو نہج البلاغہ میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی وہ تقریر پڑھ لے جو انہوں نے حضرت عمر کو ایرانیوں کے مقابلے پر خود جانے کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے کی تھی ۔ اس میں وہ فرماتے ہیں : اس کام کا فروغ یا ضعف کثرت و قلت پر موقوف نہیں ہے ۔ یہ تو اللہ کا دین ہے جس کو اس نے فروغ دیا اور اللہ کا لشکر ہے جس کی اس نے تائید و نصرت فرمائی ، یہاں تک کہ یہ ترقی کر کے اس منزل تک پہنچ گیا ۔ ہم سے تو اللہ خود فرما چکا ہے وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ ............ اللہ اس وعدے کو پورا کر کے رہے گا اور اپنے لشکر کی ضرور مدد کرے گا ۔ اسلام میں قیم کا مقام وہی ہے جو موتیوں کے ہار میں رشتے کا مقام ہے ۔ رشتہ ٹوٹتے ہی موتی بکھر جاتے ہیں اور نظم درہم برہم ہو جاتا ہے ۔ اور پراگندہ ہو جانے کے بعد پھر جمع ہونا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ عرب تعداد میں قلیل ہیں ۔ مگر اسلام نے ان کو کثیر اور اجتماع نے ان کو قوی بنا دیا ہے ۔ آپ یہاں قطب بن کر جمے بیٹھے رہیں اور عرب کی چکی کو اپنے گرد گھماتے رہیں اور یہیں سے بیٹھے بیٹھے جنگ کی آگ بھڑکاتے رہیں ۔ ورنہ آپ اگر ایک دفعہ یہاں سے ہٹ گئے تو ہر طرف سے عرب کا نظام ٹوٹنا شروع ہو جائے گا اور نوبت یہ آ جائے گی کہ آپ کو سامنے کے دشمنوں کی بہ نسبت پیچھے کے خطرات کی زیادہ فکر لاحق ہو گی ۔ اور ادھر ایرانی آپ ہی کے اوپر نظر جما دیں گے کہ یہ عرب کی جڑ ہے ، اسے کاٹ دو تو بیڑا پار ہے ، اس لیے وہ سارا زور آپ کو ختم کر دینے پر لگا دیں گے ۔ رہی وہ بات جو آپ نے فرمائی ہے کہ اس وقت اہل عجم بڑی کثیر تعداد میں امنڈ آئے ہیں ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ہم جو ان سے لڑتے رہے ہیں تو کچھ کثرت تعداد کے بل پر نہیں لڑتے رہے ہیں ، بلکہ اللہ کی تائید و نصرت ہی نے آج تک ہمیں کامیاب کرایا ہے ۔ دیکھنے والا خود ہی دیکھ سکتا ہے کہ اس تقریر میں جناب امیر کس کو آیت استخلاف کا مصداق ٹھہرا رہے ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :84 کفر سے مراد یہاں کفران نعمت بھی ہو سکتا ہے اور انکار حق بھی ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس کے مصداق وہ لوگ ہوں گے جو نعمت خلافت پانے کے بعد طریق حق سے ہٹ جائیں اور دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کے مصداق منافقین ہوں گے جو اللہ کا یہ وعدہ سن لینے کے بعد بھی اپنی منافقانہ روش نہ چھوڑیں ۔
عروج اسلام لازم ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ فرما رہا ہے کہ آپ کی امت کو زمین کا مالک بنا دے گا ، لوگوں کا سردار بنا دے گا ، ملک ان کی وجہ سے آباد ہوگا ، بندگان رب ان سے دل شاد ہوں گے ۔ آج یہ لوگوں سے لرزاں وترساں ہیں کل یہ باامن واطمینان ہوں گے ، حکومت ان کی ہوگی ، سلطنت ان کے ہاتھوں میں ہوگی ۔ الحمد للہ یہی ہوا بھی ۔ مکہ ، خیبر ، بحرین ، جزیرہ عرب اور یمن تو خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں فتح ہوگیا ۔ حجر کے مجوسیوں نے جزیہ دے کر ماتحتی قبول کر لی ، شام کے بعض حصوں کا بھی یہی حال ہوا ۔ شاہ روم ہرقل نے تحفے تحائف روانہ کئے ۔ مصر کے والی نے بھی خدمت اقدس میں تحفے بھیجے ، اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس نے ، عمان کے شاہوں نے بھی یہی کیا اور اس طرح اپنی اطاعت گزاری کا ثبوت دیا ۔ حبشہ کے بادشاہ اصحمہ رحمۃ اللہ علیہ تو مسلمان ہی ہوگئے اور ان کے بعد جو والی حبشہ ہوا ۔ اس نے بھی سرکار محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں عقیدت مندی کے ساتھ تحائف روانہ کئے ۔ پھر جب کہ اللہ تعالیٰ رب العزت نے اپنے محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی مہمانداری میں بلوالیا ، آپ کی خلافت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سنبھالی ، جزیرہ عرب کی حکومت کو مضبوط اور مستقل بنایا اور ساتھ ہی ایک جرار لشکر سیف اللہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سپہ سالاری میں بلاد فارس کی طرف بھیجا جس نے وہاں فتوحات کا سلسلہ شروع کیا ، کفر کے درختوں کو چھانٹ دیا اور اسلامی پودے ہر طرف لگادئیے ۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ امراء کے ماتحت شام کے ملکوں کی طرف لشکر اسلام کے جاں بازوں کو روانہ فرمایا ۔ انہوں نے بھی یہاں محمدی جھنڈا بلند کیا اور صلیبی نشان اوندھے منہ گرائے ، پھر مصر کی طرف مجاہدین کا لشکر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرداری میں روانہ فرمایا ۔ بصری ، دمشق ، حران وغیرہ کی فتوحات کے بعد آپ بھی راہی ملک بقا ہوئے اور بہ الہام الہٰی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے فاروق کے زبردست زورآور ہاتھوں میں سلطنت اسلام کی باگیں دے گئے ۔ سچ تو یہ ہے کہ آسمان تلے کسی نبی کے بعد ایسے پاک خلیفوں کا دور نہیں ہوا ۔ آپ کی قوت ، طبیعت ، آپ کی نیکی ، سیرت ، آپ کے عدل کا کمال ، آپ کی ترسی کی مثال دنیا میں آپ کے بعد تلاش کرنا محض بےسود اور بالکل لا حاصل ہے ۔ تمام ملک شام ، پورا علاقہ مصر ، اکثر حصہ فارس آپ کی خلافت کے زمانے میں فتح ہوا ۔ سلطنت کسری کے ٹکڑے اڑگئے ، خود کسری کو منہ چھپانے کے لئے کوئی جگہ نہ ملی ۔ کامل ذلت واہانت کے ساتھ بھاگتا پھرا ۔ قیصر کو فنا کر دیا ۔ مٹا دیا ۔ شام کی سلطنت سے دست بردار ہونا پڑا ۔ قسطنطنیہ میں جاکر منہ چھپایا ان سلطنتوں کی صدیوں کی دولت اور جمع کئے ہوئے بیشمار خزانے ان بندگان رب نے اللہ کے نیک نفس اور مسکین خصلت بندوں پر خرچ کئے اور اللہ کے وعدے پورے ہوئے جو اس نے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کہلوائے تھے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ ۔ پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا دور آتا ہے اور مشرق ومغرب کی انتہا تک اللہ کا دین پھیل جاتا ہے ۔ اللہ کا لشکر ایک طرف اقصی مشرق تک اور دوسری طرف انتہاء مغرب تک پہنچ کر دم لیتے ہیں ۔ اور مجاہدین کی آب دار تلواریں اللہ کی توحید کو دنیا کے گوشے گوشے اور چپے چپے میں پہنچا دیتی ہیں ۔ اندلس ، قبرص ، قیروان وسبتہ یہاں تک کہ چین تک آپ کے زمانے میں فتح ہوئے ۔ کسری قتل کردیا گیا اس کا ملک تو ایک طرف نام و نشان تک کھود کر پھینک دیا گیا اور ہزارہا برس کے آتش کدے بجھا دئیے گئے اور ہر اونچے ٹیلے سے صدائے اللہ اکبر آنے لگی ۔ دوسری جانب مدائن ، عراق ، خراسان ، اھواز سب فتح ہوگئے ترکوں سے جنگ عظیم ہوئی آخر ان کا بڑا بادشاہ خاقان خاک میں ملا ذلیل وخوار ہوا اور زمین کے مشرقی اور مغربی کونوں نے اپنے خراج بارگاہ خلافت عثمانی میں پہنچوائے ۔ حق تو یہ ہے کہ مجاہدین کی ان جانبازیوں میں جان ڈالنے والی چیز حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تلاوت قرآن کی برکت تھی ۔ آپ کو قرآن سے کچھ ایساشغف تھا جو بیان سے باہر ہے ۔ قرآن کے جمع کرنے ، اس کے حفظ کرنے ، اس کی اشاعت کرنے ، اس کے سنبھالنے میں جو نمایاں خدمیتں خلیفہ ثالث نے انجام دیں وہ یقینا عدیم المثال ہیں ۔ آپ کے زمانے کو دیکھو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی کو دیکھو کہ آپ نے فرمایا تھا کہ میرے لئے زمین سمیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے مشرق ومغرب دیکھ لی عنقریب میری امت کی سلطنت وہاں تک پہنچ جائے گی جہاں تک اس وقت مجھے دکھائی گئی ہے ۔ ( مسلمانو ! رب کے اس وعدے کو پیغمبر کی اس پیش گوئی کو دیکھو پھر تاریخ کے اوراق پلٹو اور اپنی گزشتہ عظمت وشان کو دیکھو آؤ نظریں ڈالو کہ آج تک اسلام کا پرچم بحمد اللہ بلند ہے اور مسلمان ان مجاہدین کرام کی مفتوح زمینوں میں شاہانہ حیثیت سے چل پھر رہے ہیں اللہ اور اس کے رسول سچے ہیں مسلمانو حیف اور صد حیف اس پر جو قرآن حدیث کے دائرے سے باہر نکلے حسرت اور صد حسرت اس پر جو اپنے آبائی ذخیرے کو غیر کے حوالے کرے ۔ اپنے آباؤ اجداد کے خون کے قطروں سے خریدی ہوئی چیز کو اپنی نالائقیوں اور بےدینیوں سے غیر کی بھینٹ چڑھاوے اور سکھ سے بیٹھا ، لیٹا رہے ۔ اللہ ہمیں اپنا لشکری بنالے آمین آمین ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگوں کا کام بھلائی سے جاری رہے گا یہاں تک کہ ان میں بارہ خلفاء ہوں گے پھر آپ نے ایک جملہ آہسۃ بولا جو راوی حدیث حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سن نہ سکے تو انہوں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا انہوں نے بیان کیا کہ یہ فرمایا ہے یہ سب کے سب قریشی ہوں گے ( مسلم ) آپ نے یہ بات اس شام کو بیان فرمائی تھی جس دن حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رجم کیا گیا تھا ۔ پس معلوم ہوا کہ ان بارہ خلیفوں کا ہونا ضروری ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ وہ خلفاء نہیں جو شیعوں نے سمجھ رکھے ہیں کیونکہ شیعوں کے اماموں میں بہت سے وہ بھی ہیں جنہیں خلافت وسلطنت کا کوئی حصہ بھی پوری عمر میں نہیں ملا تھا اور یہ بارہ خلفاء ہوں گے ۔ سب کے سب قریشی ہوں گے ، حکم میں عدل کرنے والے ہوں گے ، ان کی بشارت اگلی کتابوں میں بھی ہے اور یہ شرط نہیں ہے کہ یہ سب یکے بعد دیگرے ہوں گے بلکہ ان کا ہونایقینی ہے خواہ پے درپے کچھ ہوں خواہ متفرق زمانوں میں کچھ ہوں ۔ چنانچہ چاروں خلیفے تو بالترتیب ہوئے اول ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ان کے بعد پھر سلسلہ ٹوٹ گیا پھر بھی ایسے خلیفہ ہوئے اور ممکن ہے آگے چل کر بھی ہوں ۔ ان کے صحیح زمانوں کا علم اللہ ہی کو ہے ہاں اتنا یقینی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام بھی انہی بارہ میں سے ہوں گے جن کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے جن کی کنیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت سے مطابق ہوگی تمام زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے جیسے کہ وہ ظلم وناانصافی سے بھر گئی ہوگئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے میرے بعد خلافت تیس سال رہے گی پھر کاٹ کھانے والا ملک ہوجائے گا ۔ ابو العالیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم بیس سال تک مکے میں رہے اللہ کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف دنیا کو دعوت دیتے رہے لیکن یہ زمانہ پوشیدگی کا ، ڈر خوف کا اور بے اطمینانی کا تھا ، جہاد کا حکم نہیں آیا تھا ۔ مسلمان بیحد کمزور تھے اس کے بعد ہجرت کا حکم ہوا ۔ مدینے پہنچے اب جہاد کا حکم ملا جہاد شروع ہوا دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا ۔ اہل اسلام بہت خائف تھے ۔ خطرے سے کوئی وقت خالی نہیں جاتا تھا صبح شام صحابہ ہتھیاروں سے آراستہ رہتے تھے ۔ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم اسی طرح خوف زدہ ہی رہیں گے ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہماری زندگی کی کوئی گھڑی بھی اطمینان سے نہیں گزرے گی ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہتھیار اتار کر بھی ہمیں کبھی آسودگی کا سانس لینا میسر آئے گا ؟ آپ نے پورے سکون سے فرمایا کچھ دن اور صبر کر لو پھر تو اس قدر امن واطمینان ہوجائے گا کہ پوری مجلس میں ، بھرے دربار میں چوکڑی بھر کر آرام سے بیٹھے ہوئے رہو گے ۔ ایک کے پاس کیا کسی کے پاس بھی کوئی ہتھیار نہ ہوگا کیونکہ کامل امن وامان پورا اطمینان ہوگا ۔ اسی وقت یہ آیت اتری ۔ پھر تو اللہ کے نبی جزیرہ عرب پر غالب آگئے عرب میں بھی کوئی کافر نہ رہا مسلمانوں کے دل خوف سے خالی ہوگئے اور ہتھیار ہر وقت لگائے رہنے ضروری نہ رہے ۔ پھر یہی امن وراحت کا دور دورہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد بھی تین خلافتوں تک رہا یعنی ابو بکر وعمر وعثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے تک ۔ پھر مسلمان ان جھگڑوں میں پڑگئے جو رونما ہوئے پھر خوف زدہ رہنے لگے اور پہرے دار اور چوکیدار داروغے وغیرہ مقرر کئے اپنی حالتوں کو متغیر کیا تو متغیر ہوگئے ۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ انہوں نے حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خلافت کی حقانیت کے بارے میں اس آیت کو پیش کیا ۔ براء بن عازب کہتے ہیں جس وقت یہ آیت اتری ہے اس وقت ہم انتہائی خوف اور اضطراب کی حالت میں تھے جیسے فرمان ہے ۔ آیت ( وَاذْكُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَاَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 26؀ ) 8- الانفال:26 ) ، یعنی یہ وہ وقت بھی تھا کہ تم بیحد کمزور اور تھوڑے تھے اور قدم قدم اور دم دم پر خوف زدہ رہتے تھے اللہ تعالیٰ نے تمہاری تعداد بڑھا دی تمہیں قوت وطاقت عنایت فرمائی اور امن وامان دیا ۔ پھر فرمایا کہ جیسے ان سے پہلے کے لوگوں کو اس نے زمین کا مالک کر دیا تھا جیسے کہ کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا آیت ( عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ ١٢٩؀ۧ ) 7- الاعراف:129 ) ، بہت ممکن ہے بلکہ بہت ہی قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کو ہلاک کر دے اور تمہیں ان کا جانشین بنا دے ۔ اور آیت میں ہے ( وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اَىِٕمَّةً وَّنَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِيْنَ Ĉ۝ۙ ) 28- القصص:5 ) یعنی ہم نے ان پر احسان کرنا چاہا جو زمین بھر میں سب سے زیادہ ضعیف اور ناتواں تھے ۔ پھر فرمایا کہ ان کے دین کو جو اللہ کا پسندیدہ ہے جما دے گا اور اسے قوت وطاقت دے گا ۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بطور وفد آپ کے پاس آئے تو آپ نے ان سے فرمایا کیا تو نے حیرہ دیکھاہے اس نے جواب دیا کہ میں حیرہ کو نہیں جانتا ہاں اس کا نام سنا ہے آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اللہ تعالیٰ میرے اس دین کو کامل طور پر پھیلائے گا یہاں تک کہ امن وامان قائم ہو جائے گا کہ حیرہ سے ایک سانڈنی سوار عورت تنہانکلے گی اور وہ بیت اللہ تک پہنچ کر طواف سے فارغ ہو کر واپس ہوگی نہ خوف زدہ ہوگی نہ ہی اس کے ساتھ محافظ ہوگا ۔ یقین مان کہ کسری بن ھرمز کے خزانے مسلمانوں کی فتوحات میں آئیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں اسی کسری بن ھرمز کے ۔ سنو اس قدر مال بڑھ جائے گا کہ کوئی قبول کرنے والا نہ ملے گا ۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اب تم دیکھ لو کہ فی الواقع حیرہ سے عورتیں بغیر کسی کی پناہ کی آتی جاتی ہیں ۔ اس پیشن گوئی کو پورا ہوتے ہوئے ہم نے دیکھ لیا دوسری پیشین گوئی تو میری نگاہوں کے سامنے پوری ہوئی کسری کے خزانے فتح کرنے والوں نے بتایا خود میں موجود تھا اور تیسری پیشین گوئی یقینا پوری ہو کر رہ گئی کیونکہ وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔ مسند احمد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اس امت کو ترقی اور بڑھوتری کی مدد اور دین کی اشاعت کی بشارت دو ۔ ہاں جو شخص آخرت کا عمل دنیا کے حاصل کرنے کے لیے کرے وہ جان لے کہ آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ملے گا ۔ پھر فرماتا ہے کہ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے ۔ مسند میں ہے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک گدھے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور آپ کے درمیان صرف پالان کی لکڑی تھی آپ نے میرے نام سے مجھے آواز دی میں نے لبیک وسعدیک کہا پھر تھوڑی سی دیر کے بعد چلنے کے بعد اسی طرح مجھے پکارا اور میں نے بھی اسی طرح جواب دیا ۔ آپ نے فرمایا جانتے ہو اللہ کا حق اپنے بندوں پر کیا ہے ؟ میں نے کہا اللہ اور اسکا رسول خوب جانتا ہے آپ نے فرمایا بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ پھر تھوڑی سی دیر چلنے کے بعد مجھے پکارا اور میں جواب دیا تو آپنے فرمایا جانتے ہو جب بندے اللہ کا حق ادا کریں تو اللہ کے ذمے بندوں کا حق کیا ہے ؟ میں نے جواب دیا اللہ اور اس کے رسول کو ہی پورا علم ہے ۔ آپ نے فرمایا یہ کہ انہیں عذاب نہ کرے ۔ ( بخاری ومسلم ) پھر فرمایا اس کے بعد جو منکر ہوجائے وہ یقینا فاسق ہے ۔ یعنی اس کے بعد بھی جو میری فرمانبرداری چھوڑ دے اس نے میری حکم عدولی کی اور یہ گناہ سخت اور بہت بڑا ہے ۔ شان الہٰی دیکھو جتنا جس زمانے میں اسلام کا زور رہا اتنی ہی مدد اللہ کی ہوئی ۔ صحابہ اپنے ایمان میں بڑھے ہوئے تھے فتوحات میں بھی سب سے آگے نکل گئے جوں جوں ایمان کمزور ہوتا گیا دنیوی حالت سلطنت وشوکت بھی گرتی گئی ۔ بخاری ومسلم میں ہے میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ برسرحق رہے گی اور وہ غالب اور نڈر رہے گی ان کی مخالفت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے قیامت تک یہ اسی طرح رہے گی اور روایت میں ہے یہاں تک اللہ کا وعدہ آجائے گا ایک اور روایت میں ہے یہاں تک کہ یہی جماعت سب سے آخر دجال سے جہاد کرے گی اور حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اترنے تک یہ لوگ کافروں پر غالب رہیں گے یہ سب روایتیں صحیح ہیں اور ایک ہی مطلب سب کا ہے ۔