Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لِيَسۡتَـاْذِنۡكُمُ الَّذِيۡنَ مَلَكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ وَالَّذِيۡنَ لَمۡ يَـبۡلُغُوا الۡحُـلُمَ مِنۡكُمۡ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ‌ؕ مِنۡ قَبۡلِ صَلٰوةِ الۡفَجۡرِ وَحِيۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِيَابَكُمۡ مِّنَ الظَّهِيۡرَةِ وَمِنۡۢ بَعۡدِ صَلٰوةِ الۡعِشَآءِ ‌ؕ  ثَلٰثُ عَوۡرٰتٍ لَّـكُمۡ‌ ؕ لَـيۡسَ عَلَيۡكُمۡ وَ لَا عَلَيۡهِمۡ جُنَاحٌۢ بَعۡدَهُنَّ‌ ؕ طَوّٰفُوۡنَ عَلَيۡكُمۡ بَعۡضُكُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ‌ ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ‌ ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿58﴾
ایمان والو! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں ( اپنے آنے کی ) تین وقتوں میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے ۔ نماز فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت جب کہ تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو اور عشا کی نماز کے بعد ، یہ تینوں وقت تمہاری ( خلوت ) اور پردہ کے ہیں ، ان وقتوں کے ماسوا نہ تو تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر ، تم سب آپس میں ایک دوسرے کے پاس بکثرت آنے جانے والے ہو ( ہی ) ، اللہ اس طرح کھول کھول کر اپنے احکام تم سے بیان فرما رہا ہے ۔ اللہ تعالٰی پورے علم اور کامل حکمت والا ہے ۔
يايها الذين امنوا ليستاذنكم الذين ملكت ايمانكم و الذين لم يبلغوا الحلم منكم ثلث مرت من قبل صلوة الفجر و حين تضعون ثيابكم من الظهيرة و من بعد صلوة العشاء ثلث عورت لكم ليس عليكم و لا عليهم جناح بعدهن طوفون عليكم بعضكم على بعض كذلك يبين الله لكم الايت و الله عليم حكيم
O you who have believed, let those whom your right hands possess and those who have not [yet] reached puberty among you ask permission of you [before entering] at three times: before the dawn prayer and when you put aside your clothing [for rest] at noon and after the night prayer. [These are] three times of privacy for you. There is no blame upon you nor upon them beyond these [periods], for they continually circulate among you - some of you, among others. Thus does Allah make clear to you the verses; and Allah is Knowing and Wise.
eman walo! Tum say tumhari milkiyat kay ghulamon ko aur unhen bhi jo tum mein say balooghat ko na phonchay hon ( apnay aaney ki ) teen waqton mein ijazat hasil kerni zaroori hai. Namaz-e-fajar say pehlay aur zohar kay waqt jab kay tum apnay kapray utar rakhtay ho aur isha ki namaz kay baad yeh teeno waqt tumhari ( khilwat ) aur parday kay hain. Inn waqton kay ma-siwa na to tum per koi gunah hai na unn per. Tum sab aapas mein aik doosray kay pass ba-kasrat aaney janey walay ho ( hi ) Allah iss tarah khol khol ker apnay ehkaam tum say biyan farma raha hai. Allah Taalaa pooray ilm aur kamil hikmat wala hai.
اے ایمان والو ! جو غلام لونڈیاں تمہاری ملکیت میں ہیں ، اور تم میں سے جو بچے ابھی بلوغ تک نہیں پہنچے ان کو چاہیے کہ وہ تین اوقات میں ( تمہارے پاس آنے کے لیے ) تم سے اجازت لیا کریں ۔ نماز فجر سے پہلے ، اور جب تم دوپہر کے وقت اپنے کپڑے اتار کر رکھا کرتے ہو ، اور نماز عشاء کے بعد ( ٤٢ ) یہ تین وقت تمہارے پردے کے اوقات ہیں ۔ ان اوقات کے علاوہ نہ تم پر کوئی تنگی ہے ، نہ ان پر ۔ ان کا بھی تمہارے پاس آنا جانا لگا رہتا ہے ، تمہارا بھی ایک دوسرے کے پاس ۔ اللہ اسی طرح آیتوں کو تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان کرتا ہے ، اور اللہ علم کا بھی مالک ہے ، حکمت کا بھی مالک ۔
اے ایمان والو! چاہیے کہ تم سے اذن لیں تمہارے ہاتھ کے مال غلام ( ف۱۳۰ ) اور جو تم میں ابھی جوانی کو نہ پہنچے ( ف۱۳۱ ) تین وقت ( ف۱۳۲ ) نمازِ صبح سے پہلے ( ف۱۳۳ ) اور جب تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو دوپہر کو ( ف۱۳٤ ) اور نماز عشاء کے بعد ( ف۱۳۵ ) یہ تین وقت تمہاری شرم کے ہیں ( ف۱۳٦ ) ان تین کے بعد کچھ گناہ نہیں تم پر نہ ان پر ( ف۱۳۷ ) آمدورفت رکھتے ہیں تمہارے یہاں ایک دوسرے کے پاس ( ف۱۳۸ ) اللہ یونہی بیان کرتا ہے تمہارے لیے آیتیں ، اور اللہ علم و حکمت والا ہے ،
85 اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، لازم ہے کہ تمہارے مملوک 86 اور تمہارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں 87 ، تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں ، صبح کی نماز سے پہلے ، اور دوپہر کو جبکہ تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو ، اور عشاء کی نماز کے بعد ۔ یہ تین وقت تمہارے لیے پردے کے وقت ہیں ۔ 88 ان کے بعد وہ بلا اجازت آئیں تو نہ تم پر کوئی گناہ ہے نہ ان پر ، 89 تمہیں ایک دوسرے کے پاس بار بار آنا ہی ہوتا ہے ۔ 90 اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنے ارشادات کی توضیح کرتا ہے ، اور وہ علیم و حکیم ہے ۔
اے ایمان والو! چاہئے کہ تمہارے زیردست ( غلام اور باندیاں ) اور تمہارے ہی وہ بچے جو ( ابھی ) جوان نہیں ہوئے ( تمہارے پاس آنے کے لئے ) تین مواقع پر تم سے اجازت لیا کریں: ( ایک ) نمازِ فجر سے پہلے اور ( دوسرے ) دوپہر کے وقت جب تم ( آرام کے لئے ) کپڑے اتارتے ہو اور ( تیسرے ) نمازِ عشاء کے بعد ( جب تم خواب گاہوں میں چلے جاتے ہو ) ، ( یہ ) تین ( وقت ) تمہارے پردے کے ہیں ، ان ( اوقات ) کے علاوہ نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر ، ( کیونکہ بقیہ اوقات میں وہ ) تمہارے ہاں کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں ، اسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتیں واضح فرماتا ہے ، اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہے
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :85 یہاں سے پھر احکام معاشرت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔ بعید نہیں کہ سورہ نور کا یہ حصہ اوپر کی تقریر کے کچھ مدت بعد نازل ہوا ہو ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :86 جمہور مفسرین و فقہاء کے نزدیک اس سے مراد لونڈیاں اور غلام دونوں ہیں ، کیونکہ لفظ عام استعمال کیا گیا ہے ۔ مگر ابن عمر اور مجاہد اس آیت میں مملوکوں سے مراد صرف غلام لیتے ہیں اور لونڈیوں کو اس سے مستثنیٰ کرتے ہیں ۔ حالانکہ آگے جو حکم بیان کیا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اس تخصیص کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ تخلیہ کے اوقات میں جس طرح خود اپنے بچوں کا اچانک آجانا مناسب نہیں اسی طرح خادمہ کا بھی آ جانا غیر مناسب ہے ۔ یہ امر متفق علیہ ہے کہ اس آیت کا حکم بالغ و نا بالغ دونوں قسم کے مملوکوں کے لیے عام ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :87 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بالغوں کا سا خواب دیکھنے کی عمر کو نہیں پہنچے ہیں ۔ اسی سے فقہاء نے لڑکوں کے معاملے میں احتلام کو بلوغ کا آغاز مانا ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے ۔ لیکن جو ترجمہ ہم نے متن میں اختیار کیا ہے وہ اس بنا پر قابل ترجیح ہے کہ یہ حکم لڑکوں اور لڑکیوں ، دونوں کے لیے ہے ، اور احتلام کو علامت بلوغ قرار دینے کے بعد حکم صرف لڑکوں کے لیے خاص ہو جاتا ہے ، کیونکہ لڑکی کے معاملہ میں ایام ماہواری کا آغاز علامت بلوغ ہے نہ کہ احتلام ۔ لہٰذا ہمارے نزدیک حکم کا منشا یہ ہے کہ جب تک گھر کے بچے اس عمر کو نہ پہنچیں جس میں ان کے اندر صنفی شعور بیدار ہوا کرتا ہے ، اور اس قاعدے کی پابندی کریں ، اور جب اس عمر کو پہنچ جائیں تو پھر ان کے لیے وہ حکم ہے جو آگے آرہا ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :88 اصل میں لفظ عورات استعمال ہوا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ یہ تین وقت تمہارے لیے عورات ہیں ۔ عورت اردو میں تو صنف اُناث کے لیے بولا جاتا ہے مگر عربی میں اس کے معنی خلل اور خطرے کی جگہ کے ہیں ، اور اس چیز کے لیے بھی بولا جاتا ہے جس کا کھل جانا آدمی کے لیے باعث شرم ہو ، یا جس کا ظاہر ہو جانا اس کو ناگوار ہو ، نیز اس معنی میں بھی یہ مستعمل ہے کہ کوئی چیز غیر محفوظ ہو ۔ یہ سب معنی باہم قریبی مناسبت رکھتے ہیں اور آیت کے مفہوم میں کسی نہ کسی حد تک سبھی شامل ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ ان اوقات میں تم لوگ تنہا ، یا اپنی بیویوں کے ساتھ ایسی حالتوں میں ہوتے ہو جن میں گھر کے بچوں اور خادموں کا اچانک تمہارے پاس آ جانا مناسب نہیں ہے ، لہٰذا ان کو یہ ہدایت کرو کہ ان تین وقتوں میں جب وہ تمہاری خلوت کی جگہ آنے لگیں تو پہلے اجازت لے لیا کریں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :89 یعنی ان تین وقتوں کے سوا دوسرے اوقات میں نا بالغ بچے اور گھر کے مملوک ہر وقت عورتوں اور مردوں کے پاس ان کے کمرے میں یا ان کے تخلیے کی جگہ میں بلا اجازت آ سکتے ہیں ۔ اس صورت میں اگر تم کسی نا مناسب حالت میں ہو اور وہ بلا اجازت آ جائیں تو تمہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنے کا حق نہیں ہے ، کیونکہ پھر یہ تمہاری اپنی حماقت ہوگی کہ کام کاج کے اوقات میں اپنے آپ کو ایسی نامناسب حالت میں رکھو ۔ البتہ اگر تخلیے کے مذکورۂ بالا تین اوقات میں وہ بلا اجازت آ جائیں ، تو وہ قصور وار ہیں اگر تمہاری تربیت و تعلیم کے باوجود یہ حرکت کریں ، ورنہ تم خود گناہ گار ہو اگر تم نے اپنے بچوں اور مملوکوں کو یہ تہذیب نہیں سکھائی ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :90 یہ وجہ ہے اس اجازت عام کی جو تین اوقات مذکورہ کے سوا دوسرے تمام اوقات میں بچوں اور مملوکوں کو بلا اجازت آنے کے لیے دی گئی ہے ۔ اس سے اصول فقہ کے اس مسئلے پر روشنی پڑتی ہے کہ شریعت کے احکام مصلحت پر مبنی ہیں ، اور ہر حکم کی کوئی نہ کوئی علت ضرور ہے ، خواہ وہ بیان کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو ۔
گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہوں اس آیت میں قریب رشتے داروں کو بھی حکم ہو رہا ہے کہ وہ اجازت حاصل کر کے آیا کریں ۔ اس سے پہلے کہ اس سورت کی شروع کی آیت میں جو حکم تھا وہ اجنبیوں کے لئے تھا ۔ پس فرماتا ہے کہ تین وقتوں میں غلاموں کو نابالغ بچوں کو بھی اجازت مانگنی چاہے ۔ صبح کی نماز سے پہلے کیونکہ وہ وقت سونے کا ہوتا ہے ۔ اور دوپہر کو جب انسان دو گھڑی راحت حاصل کرنے کے لئے عموما اپنے گھر میں بالائی کپڑے اتار کر سوتا ہے اور عشاء کی نماز کے بعد کیونکہ وہ بھی بال بچوں کے ساتھ سونے کا وقت ہے ۔ پس تین وقتوں میں نہ جائیں انسان بےفکری سے اپنے گھر میں کس حالت میں ہوتا ہے ؟ اس لئے گھر کے لونڈی غلام اور چھوٹے بچے بھی بے اطلاع ان وقتوں میں چپ چاپ نہ گھس آئیں ۔ ہاں ان خاص وقتوں کے علاوہ انہیں آنے کی اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کا آنا جانا تو ضروری ہے بار بار کے آنے جانے والے ہیں ہر وقت کی اجازت طلبی ان کے لئے اور نیز تمہارے لئے بھی بڑی حرج کی چیز ہوگی ۔ ایک حدیث میں ہے کہ بلی نجس نہیں وہ تو تمہارے گھروں میں تمہارے آس پاس گھومنے پھرنے والی ہے ۔ حکم تو یہی ہے اور عمل اس پر بہت کم ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تین آیتوں پر عموما لوگوں نے عمل چھوڑ رکھا ہے ۔ ایک تو یہی آیت اور ایک سورہ نساء کی آیت ( وَاِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنُ فَارْزُقُوْھُمْ مِّنْهُ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا Ď۝ ) 4- النسآء:8 ) اور ایک سورہ حجرات کی آیت ( اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 13؀ ) 49- الحجرات:13 ) شیطان لوگوں پر چھا گیا اور انہیں ان آیتوں پر عمل کرنے سے غافل کر دیا گویا ان پر ایمان ہی نہیں میں نے تو اپنی اس لونڈی سے بھی کہہ رکھا ہے کہ ان تینوں وقتوں میں بے اجازت ہرگز نہ آئے ۔ پہلی آیت میں تو ان تین وقتوں میں لونڈی غلاموں اور نابالغ بچوں کو بھی اجازت لینے کا حکم ہے دوسری آیت میں ورثے کی تقسیم کے وقت جو قرابت دار اور یتیم مسکین آجائیں انہیں بنام الہٰی کچھ دے دینے اور ان سے نرمی سے بات کرنے کا حکم ہے اور تیسری آیت میں حسب ونسب پر فخر کرنے بلکہ قابل اکرام خوف الہٰی کے ہونے کا ذکر ہے ۔ حضرت شعبی رحمۃاللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کیا یہ آیت منسوخ ہوگئی ہے ؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں ۔ اس نے کہا پھر لوگوں نے اس پر عمل کیوں چھوڑ رکھا ہے ؟ فرمایا اللہ سے توفیق طلب کرنی چاہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس آیت پر عمل کے ترک کی وجہ مالداری اور فراخ دلی ہے ۔ پہلے تو لوگوں کے پاس اتنا بھی نہ تھا کہ اپنے دروازوں پر پردے لٹکا لیتے یا کشادہ گھر کئی کئی الگ الگ کمروں والے ہوتے ہیں تو بسا اوقات لونڈی غلام بےخبری میں چلے آتے اور میاں بیوی مشغول ہوتے تو آنے والے بھی شرما جاتے اور گھر والوں پر بھی شاق گزرتا اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کشادگی دی ، کمرے جداگانہ بن گئے ، دروازے باقاعدہ لگ گئے ، دروازوں پر پردے پڑگئے تو محفوظ ہوگئے ۔ حکم الہٰی کی مصلحت پوری ہوگئی اس لئے اجازت کی پابندی اٹھ گئی اور لوگوں نے اس میں سستی اور غفلت شروع کر دی ۔ سدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہی تین وقت ایسے ہیں کہ انسان کو ذرا فرصت ہوتی ہے گھر میں ہوتا ہے اللہ جانے کس حالت میں ہو اس لئے لونڈی غلاموں کو بھی اجازت کا پابند کر دیا ہے کیونکہ اسی وقت میں عموما لوگ اپنی گھر والیوں سے ملتے ہیں تاکہ نہا دھو کر بہ آرام گھر سے نکلیں اور نمازوں میں شامل ہوں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ایک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ کھانا پکایا جائے لوگ بلا اجازت ان کے گھر میں جانے لگے ۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو نہایت بری بات ہے کہ غلام بے اجازت گھر میں آجائے ممکن ہے میاں بیوی ایک ہی کپڑے میں ہوں ۔ پس یہ آیت اتری ۔ اس آیت کے منسوخ نہ ہونے پر اس آیت کے خاتمے کے الفاظ بھی دلالت کرتے ہیں کہ اسی طرح تین وقتوں میں جن کا بیان اوپر گزرا اجازت مانگنی ضروری ہے لیکن بعد بلوغت تو ہر وقت اطلاع کر کے ہی جانا چاہے ۔ جیسے کہ اور بڑے لوگ اجازت مانگ کر آتے ہیں خواہ اپنے ہوں یا پرائے ۔ جو بڑھیا عورتیں اس عمر کو پہنچ جائیں کہ نہ اب انہیں مرد کی خواہش رہے نہ نکاح کی توقع حیض بند ہوجائے عمر سے اتر جائیں تو ان پر پردے کی وہ پابندیاں نہیں جو اور عورتوں پر ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایسی عورتوں کو اجازت ہے کہ وہ برقعہ اور چادر اتار دیا کریں صرف دوپٹے میں اور کرتے پاجامے میں رہیں ۔ آپ کی قرأت بھی آیت ( اَنْ يَّضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۢ بِزِيْنَةٍ ۭوَاَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ 60؀ ) 24- النور:60 ) ہے ۔ مراد اس سے دوپٹے کے اوپر کی جادر ڈالنا ضروری نہیں ۔ لیکن مقصود اس سے بھی اظہار زینت نہ ہو ۔ حضرت عائشہ سے جب اس قسم کے سوالات عورتوں نے کئے تو آپ نے فرمایا تمہارے لئے بناؤ سنگھار بیشک حلال اور طیب ہے لیکن غیر مردوں کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے نہیں ۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی صاحبہ جب بالکل بڑھیا پھوس ہوگئیں تو آپ نے اپنے غلام کے ہاتھوں اپنے سر کے بالوں میں مہندی لگوائی جب ان سے سوال کیا گیا تو فرمایا میں ان عمر رسیدہ عورتوں میں ہوں جنہیں خواہش نہیں رہی ۔ آخر میں فرمایا گو چادر کا نہ لینا ان بڑی عورتوں کے لئے جائز تو ہے مگر تاہم افضل یہی ہے کہ چادروں اور برقعوں میں ہی رہیں ۔ اللہ تعالیٰ سننے والا ہے ۔