Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَاِذَا بَلَغَ الۡاَطۡفَالُ مِنۡكُمُ الۡحُـلُمَ فَلۡيَسۡتَـاْذِنُوۡا كَمَا اسۡتَـاْذَنَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ‌ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمۡ اٰيٰتِهٖ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿59﴾
اور تمہارے بچے ( بھی ) جب بلوغت کو پہنچ جائیں تو جس طرح ان کے اگلے لوگ اجازت مانگتے ہیں انہیں بھی اجازت مانگ کر آنا چاہیے اللہ تعالٰی تم سے اسی طرح اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہی علم و حکمت والا ہے ۔
و اذا بلغ الاطفال منكم الحلم فليستاذنوا كما استاذن الذين من قبلهم كذلك يبين الله لكم ايته و الله عليم حكيم
And when the children among you reach puberty, let them ask permission [at all times] as those before them have done. Thus does Allah make clear to you His verses; and Allah is Knowing and Wise.
Aur tumharay bachay ( bhi ) jab balooghat ko phonch jayen to jiss tarah unn kay aglay log ijazat mangtay hain unhen bhi ijazat maang ker aana chahaye Allah Taalaa tum say issi tarah apni aayaten biyan farmata hai. Allah Taalaa hi ilm-o-hikmat wala hai.
اور جب تمہارے بچے بلوغ کو پہنچ جائیں ، تو وہ بھی اسی طرح اجازت لیا کریں جیسے ان سے پہلے بالغ ہونے والے اجازت لیتے رہے ہیں ۔ اللہ اسی طرح اپنی آیتیں کھول کھول کر تمہارے سامنے بیان کرتا ہے ، اور اللہ علم کا بھی مالک ہے ، حکمت کا بھی مالک ۔
اور جب تم میں لڑکے ( ف۱۳۹ ) جوانی کو پہنچ جائیں تو وہ بھی اذن مانگیں ( ف۱٤۰ ) جیسے ان کے اگلوں ( ف۱٤۱ ) نے اذن مانگا ، اللہ یونہی بیان فرماتا ہے تم سے اپنی آیتیں ، اور اللہ علم و حکمت والا ہے ،
اور جب تمہارے بچے عقل کی حد کو پہنچ جائیں 91 تو چاہیے کہ اسی طرح اجازت لیکر آیا کریں جس طرح ان کے بڑے اجازت لیتے رہے ہیں ۔ اس طرح اللہ اپنی آیات تمہارے سامنے کھولتا ہے ، اور وہ علیم و حکیم ہے ۔ اور جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں 92 ، نکاح کی امیدوار نہ ہوں ، وہ اگر اپنی چادریں اتار کر رکھ دیں 93
اور جب تم میں سے بچے حدِ بلوغ کو پہنچ جائیں تو وہ ( تمہارے پاس آنے کے لئے ) اجازت لیا کریں جیسا کہ ان سے پہلے ( دیگر بالغ افراد ) اجازت لیتے رہتے ہیں ، اس طرح اللہ تمہارے لئے اپنے احکام خُوب واضح فرماتا ہے ، اور اللہ خوب علم والا اور حکمت والا ہے
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :91 یعنی بالغ ہو جائیں ۔ جیسا کہ اوپر حاشیہ نمبر 87 میں بیان کیا جا چکا ہے لڑکوں کے معاملے میں احتلام اور لڑکیوں کے معاملے میں ایام ماہواری کا آغاز علامت بلوغ ہے ۔ لیکن جو لڑکے اور لڑکیاں کسی وجہ سے دیر تک ان جسمانی تغیرات سے خالی رہ جائیں ان کے معاملہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ امام شافعی ، امام ابو یوسف ، امام محمد ، اور امام احمد کے نزدیک اس صورت میں 15 برس کے لڑکے اور لڑکی کو بالغ سمجھا جائے گا ، اور امام ابو حنیفہ کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے ۔ لیکن امام اعظم کا مشہور قول یہ ہے کہ اس صورت میں 17 برس کی لڑکی اور 18 برس کے لڑکے کو بالغ قرار دیا جائے گا ۔ یہ دونوں قول کسی نص پر نہیں بلکہ فقیہانہ اجتہاد پر مبنی ہیں ، لہٰذا ضروری نہیں ہے کہ تمام دنیا میں ہمیشہ 15 یا 18 برس کی عمر ہی کو غیر محتلم لڑکوں اور غیر حائضہ لڑکیوں کے معاملے میں حد بلوغ مانا جائے ۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں ، اور مختلف زمانوں میں جسمانی نشو ونما کے حالات مختلف ہوا کرتے ہیں ۔ اصل چیز یہ ہے کہ عموماً کسی ملک میں جن عمروں کے لڑکوں اور لڑکیوں کو احتلام اور ایام ماہواری ہونے شروع ہوتے ہوں ان کا اوسط فرق نکال لیا جائے ، اور پھر جن لڑکوں اور لڑکیوں میں کسی غیر معمولی وجہ سے یہ علامات اپنے معتاد وقت پر نہ ظاہر ہوں ان کے لیے زیادہ سے زیادہ معتاد عمر پر اس اوسط کا اضافہ کر کے اسے بلوغ کی عمر قرار دے دیا جائے ۔ مثلاً کسی ملک میں بالعموم کم سے کم 12 اور زیادہ سے زیادہ 15 برس کے لڑکے کو احتلام ہوا کرتا ہو ، تو اوسط فرق ڈیڑھ سال ہو گا ، اور غیر معمولی قسم کے لڑکوں کے لیے ہم ساڑھے سولہ برس کی عمر کو سن بلوغ قرار دے سکیں گے ۔ اسی قاعدے پر مختلف ممالک کے اہل قانون اپنے ہاں کے حالات کا لحاظ کرتے ہوئے ایک حد مقرر کر سکتے ہیں ۔ 15 برس کی حد کے حق میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے ، اور وہ ابن عمر کی یہ روایت ہے کہ میں 14 سال کا تھا جب غزوۂ خندق کے موقع پر ، جبکہ میں 15 سال کا تھا ، مجھے دوبارہ پیش کیا گیا اور آپ نے مجھ کو اجازت دے دی ( صحاح ستہ و مسند احمد ) ۔ لیکن یہ روایت دو وجوہ سے قابل استدلال نہیں ہے ۔ اول یہ کہ غزوہ احد شوال 3 ھ کا واقعہ ہے اور غزوہ خندق بقول محمد بن اسحاق شوال 5 ھ میں اور بقول ابن سعد ذی القعدہ 5 میں پیش آیا ۔ دونوں واقعات کے درمیان پورے دو سال یا اس سے زیادہ کا فرق ہے ۔ اب اگر غزوہ احد کے زمانے میں ابن عمر 14 سال کے تھے تو کس طرح ممکن ہے کہ غزوہ خندق کے زمانے میں وہ صرف 15 سال کے ہوں ؟ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے 12 سال 11 مہینے کی عمر کو 14 سال ، اور 15 برس 11 مہینے کی عمر کا 15 سال کہہ دیا ہو ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لڑائی کے لیے بالغ ہونا اور چیز ہے اور معاشرتی معاملات میں قانوناً نا بالغ ہونا اور چیز ۔ ان دونوں میں کوئی لازمی تعلق نہیں ہے کہ ایک کو دوسرے کے لیے دلیل بنایا جا سکے ۔ لہٰذا صحیح یہ ہے کہ غیر محتلم لڑکے کے لیے 15 برس کی عمر مقرر کرنا ایک قیاسی و اجتہادی حکم ہے ، کوئی منصوص حکم نہیں ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :92 اصل میں لفظ قواعد من النسآء کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، یعنی عورتوں میں سے جو بیٹھ چکی ہوں یا بیٹھی ہوئی عورتیں ۔ اس سے مراد ہے سن یاس ، یعنی عورت کا اس عمر کو پہنچ جانا جس میں وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ رہے ، اس کی اپنی خواہشات بھی مر چکی ہوں اس کو دیکھ کر مردوں میں بھی کوئی صنفی جذبہ نہ پیدا ہو سکتا ہو ۔ اسی معنی کی طرف بعد کا فقرہ اشارہ کر رہا ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :93 اصل الفاظ ہیں یَضَعْنَ ثِیَابَھُنَّ ، اپنے کپڑے اتار دیں ۔ مگر ظاہر ہے کہ اس سے مراد سارے کپڑے اتار کر برہنہ ہو جانا تو نہیں ہو سکتا ۔ اسی لیے تمام فقہاء اور مفسرین نے بالاتفاق اس سے مراد وہ چادریں لی ہیں جن سے زینت کو چھپانے کا حکم سور احزاب کی آیت یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ میں دیا گیا تھا ۔