Surah

Information

Surah # 25 | Verses: 77 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 42 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 68-70, from Madina
لَّهُمۡ فِيۡهَا مَا يَشَآءُوۡنَ خٰلِدِيۡنَ‌ ؕ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ وَعۡدًا مَّسۡـــُٔوۡلًا‏ ﴿16﴾
وہ جو چاہیں گے ان کے لئے وہاں موجود ہوگا ، ہمیشہ رہنے والے ۔ یہ تو آپ کے رب کے ذمے وعدہ ہے جو قابل طلب ہے ۔
لهم فيها ما يشاءون خلدين كان على ربك وعدا مسولا
For them therein is whatever they wish, [while] abiding eternally. It is ever upon your Lord a promise [worthy to be] requested.
Woh jo chahayen gay unn kay liye wahan mojood hoga hamesha rehney walay. Yeh to aap kay rab kay zimmay wada hai jo qabil-e-talab hai.
وہاں انہیں ہمیشہ ہمیشہ بستے ہوئے ہر وہ چیز ملے گی جو وہ چاہیں گے ۔ یہ وہ ذمہ دارانہ وعدہ ہے جو تمہارے رب نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے ۔
ان کے لیے وہاں من مانی مرادیں ہیں جن میں ہمیشہ رہیں گے ، تمہارے رب کے ذمہ وعدہ ہے مانگا ہوا ، ( ف۲۸ )
جس میں ان کی ہر خواہش پوری ہوگی ، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، جس کا عطا کرنا تمہارے رب کے ذمے ایک واجب الادا وعدہ ہے ۔ 23
ان کے لئے ان ( جنتوں ) میں وہ ( سب کچھ میسّر ) ہوگا جو وہ چاہیں گے ( اس میں ) ہمیشہ رہیں گے ، یہ آپ کے رب کے ذمۂ ( کرم ) پر مطلوبہ وعدہ ہے ( جو پورا ہو کر رہے گا )
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :23 اصل الفاظ ہیں وعدا مسئولا ، یعنی ایسا وعدہ جس کے پورا کرنے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے ۔ یہاں ایک شخص یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ جنت کا یہ وعدہ اور دوزخ کا یہ ڈراوا کسی ایسے شخص پر کیا اثر انداز ہو سکتا ہے ۔ جو قیامت اور حشر و نشر اور جنت و دوزخ کا پہلے ہی منکر ہو ؟ اس لحاظ سے تو یہ بظاہر ایک بے محل کلام محسوس ہوتا ہے ، لیکن تھوڑا سا غور کیا جائے تو بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے ۔ اگر معاملہ یہ ہو کہ میں ایک بات منوانا چاہتا ہوں اور دوسرا نہیں ماننا چاہتا تو بحث و حجت کا انداز کچھ اور ہوتا ہے ۔ لیکن اگر میں اپنے مخاطب سے اس انداز میں گفتگو کر رہا ہوں کہ زیر بحث مسئلہ میری بات ماننے یا نہ ماننے کا نہیں بلکہ تمہارے اپنے مفاد کا ہے ، تو مخاطب چاہے کیسا ہی ہٹ دھرم ہو ، ایک دفعہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ یہاں کلام کا طرز یہی دوسرا ہے ۔ اس صورت میں مخاطب کو خود اپنی بھلائی کے نقطہ نظر سے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ دوسری زندگی کے ہونے کا چاہے ثبوت موجود نہ ہو ، مگر بہرحال اس کے نہ ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے ، اور امکان دونوں ہی کا ہے ۔ اب اگر دوسری زندگی نہیں ہے ، جیسا کہ ہم سمجھ رہے ہیں ، تو ہمیں بھی مر کر مٹی ہو جانا ہے اور آخرت کے قائل کو بھی ۔ اس صورت میں دونوں برابر رہیں گے ۔ لیکن اگر کہیں بات وہی حق نکلی جو یہ شخص کہہ رہا ہے تو یقیناً پھر ہماری خیر نہیں ہے ۔ اس طرح یہ طرز کلام مخاطب کی ہٹ دھرمی میں ایک شگاف ڈال دیتا ہے ، اور شگاف میں مزید وسعت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب قیامت ، حشر ، حساب اور جنت و دوزخ کا ایسا تفصیلی نقشہ پیش کیا جانے لگتا ہے کہ جیسے کوئی وہاں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم ، حٰم السجدہ ، آیت 52 حاشیہ 69 ۔ الاحقاف ، آیت 10 ) ۔