Surah

Information

Surah # 25 | Verses: 77 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 42 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 68-70, from Madina
وَيَوۡمَ يَحۡشُرُهُمۡ وَمَا يَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ فَيَقُوۡلُ ءَاَنۡـتُمۡ اَضۡلَلۡـتُمۡ عِبَادِىۡ هٰٓؤُلَاۤءِ اَمۡ هُمۡ ضَلُّوا السَّبِيۡلَ ؕ‏ ﴿17﴾
اور جس دن اللہ تعالٰی انہیں اور سوائے اللہ کے جنہیں یہ پوجتے رہے ، انہیں جمع کرکے پوچھے گا کہ کیا میرے ان بندوں کو تم نے گمراہ کیا یا یہ خود ہی راہ سے گم ہوگئے ۔
و يوم يحشرهم و ما يعبدون من دون الله فيقول ءانتم اضللتم عبادي هؤلاء ام هم ضلوا السبيل
And [mention] the Day He will gather them and that which they worship besides Allah and will say, "Did you mislead these, My servants, or did they [themselves] stray from the way?"
Aur jiss din Allah Taalaa enhen aur siwaye Allah kay jinhen yeh poojtay rahey unhen jama keray ga kay kiya meray inn bandon ko tum ney gumrah kiya ya yeh khud hi raah say gumm hogaye.
اور وہ دن ( انہیں یاد دلاؤ ) جب اللہ ان ( کافروں ) کو بھی حشر میں جمع کرے گا اور ان ( معبودوں ) کو بھی جن کی یہ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے ، اور ( ان کے معبودوں سے ) کہے گا کہ : کیا تم نے میرے ان بندوں کو بہکایا تھا ، یا یہ راستے سے خود بھٹکے تھے؟
اور جس دن اکٹھا کرے گا انھیں ( ف۲۹ ) اور جن کو الله کے سوا پوجتے ہیں ( ف۳۰ ) پھر ان معبودوں سے فرمائے گا کیا تم نے گمراہ کردیے یہ میرے بندے یا یہ خود ہی راہ بھولے ( ف۳۱ )
اور وہی دن ہوگا جب کہ ﴿تمہارا رب﴾ ان لوگوں کو بھی گھیر لائے گا اور ان کے ان معبودوں 24 کو بھی بلا لے گا جنہیں آج یہ اللہ کو چھوڑ کر پوج رہے ہیں ، پھر وہ ان سے پوچھے گا ” کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا ؟ یا یہ خود راہ راست سے بھٹک گئے تھے؟ ” 25
اور اس دن اللہ انہیں اور ان کو ، جن کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتے تھے ، جمع کرے گا ، پھر فرمائے گا: کیا تم نے ہی میرے ان بندوں کو گمراہ کر دیا تھا یا وہ ( خود ) ہی راہ سے بھٹک گئے تھے
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :24 آگے کا مضمون خود ظاہر کر رہا ہے کہ یہاں معبودوں سے مراد بت نہیں ہیں بلکہ فرشتے ، انبیاء ، اولیاء ، شہداء اور صالحین ہیں جنہیں مختلف قوموں کے مشرکین معبود بنا بیٹھے ہیں ۔ بظاہر ایک شخص وَمَا یَعْبُدُوْنَ کے الفاظ پڑھ کر یہ گمان کرتا ہے کہ اس سے مراد بت ہیں ، کیونکہ عربی زبان میں عموماً مَا غیر ذوی العقول کے لیے بولا جاتا ہے ، جیسے ہم اردو زبان میں کیا ہے غیر ذوی العقول اور کون ہے ذوی العقول اور مَنْ ذوی العقول کے لیے بولتے ہیں ۔ مگر اردو کی طرح عربی میں بھی یہ الفاظ بالکل ان معنوں کے لیے مخصوص نہیں ہیں ۔ بسا اوقات ہم اردو میں کسی انسان کے متعلق تحقیر کے طور پر کہتے ہیں وہ کیا ہے اور مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے ۔ وہ کوئی بڑی ہستی نہیں ہے ۔ ایسا ہی حال عربی زبان کا بھی ہے ۔ چونکہ معاملہ اللہ کے مقابلے میں اس کی مخلوق کو معبود بنانے کا ہے ، اس لیے خواہ فرشتوں اور بزرگ انسانوں کی حیثیت بجائے خود بہت بلند ہو مگر اللہ کے مقابلے میں تو گویا کچھ بھی نہیں ہے ۔ اسی لیے موقع و محل کی مناسبت سے ان کے لیے من کے بجائے مَا کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :25 یہ مضمون متعدد مقامات پر قرآن مجید میں آیا ہے ۔ مثلاً سورہ سبا میں ہے : وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ جَمِیْعاً ثُمَّ یَقُوْلُ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اَھٰٓؤُلَآءِ اِیَّاکُمْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ ہ قَالُوْا سُبْحٰنَکَ اَنْتَ وَلِیُّنَا مِنْ دُوْنِہِمْ ۚ بَلْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْجِنَّۚ اَکْثَرُھُمْ بِہِمْ مُؤمِنُوْنَ جس روز وہ ان سب کو جمع کرے گا ، پھر فرشتوں سے پوچھے گا کیا یہ لوگ تمہاری ہی بندگی کر رہے تھے ؟ وہ کہیں گے پاک ہے آپ کی ذات ، ہمارا تعلق تو آپ سے ہے نہ کہ ان سے ۔ یہ لوگ تو جِنوں ( یعنی شیاطین ) کی بندگی کر رہے تھے ۔ ان میں سے اکثر انہی کے مومن تھے ( آیات 40 ۔ 41 ) اسی طرح سورۂ مائدہ کے آخری رکوع میں ہے : وَاِذْ قَالَ اللہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰھَیْنِ مِنْ دُونِ اللہِ ؕ قَالَ سُبْحٰنَکَ مَایَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ ؕ ....... مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖ اَنِ اعْبُدُوا اللہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ ۚ اور جب اللہ پوچھے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ ، کیا تو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو؟ وہ عرض کرے گا پاک ہے آپ کی ذات ، میرے لیے یہ کب زیبا تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا ۔ ..... میں نے تو ان سے بس وہی کچھ کہا تھا جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا ، یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ۔
عیسیٰ علیہ السلام سے سوالات بیان ہو رہا ہے کہ مشرک جن جن کی عبادتیں اللہ کے سوا کرتے رہے قیامت کے دن انہیں ان کے سامنے ان پر عذاب کے علاوہ زبانی سرزنش بھی کی جائے گی تاکہ وہ نادم ہوں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت عزیر علیہ السلام اور فرشتے جن جن کی عبادت ہوئی تھی سب موجود ہوں گے اور ان کے عابد بھی ۔ سب اسی مجمع میں موجود ہوں گے ۔ اس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ ان معبودوں سے دریافت فرمائے گا کہ کیا تم نے میرے ان بندوں سے اپنی عبادت کرنے کو کہا تھا ؟ یا یہ از خود ایسا کرنے لگے ؟ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی یہی سوال ہوگا ۔ جس کا وہ جواب دیں گے کہ میں نے انہیں ہرگز اس بات کی تعلیم نہیں دی یہ جیسا کہ تجھ پر خوب روشن ہے میں نے تو انہیں وہی کہا تھا جو تو نے مجھ سے کہا تھا کہ عبادت کے لائق فقط اللہ ہی ہے ۔ یہ سب معبود جو اللہ کے سوا تھے اور اللہ کے سچے بندے تھے اور شرک سے بیزار تھے جواب دیں گے کہ کسی مخلوق کو ہم کو یا ان کو یہ لائق ہی نہ تھا کہ تیرے سواکسی اور کی عبادت کریں ہم نے ہرگز انہیں اس شرک کی تعلیم نہیں دی ۔ خود ہی انہوں نے اپنی خوشی سے دوسروں کی پوجا شروع کر دی تھی ہم ان سے اور ان کی عبادتوں سے بیزار ہیں ۔ ہم ان کے اس شرک سے بری الذمہ ہیں ۔ ہم تو خود تیرے عابد ہیں ۔ پھر کیسے ممکن تھا کہ معبودیت کے منصب پر آجاتے ؟ یہ تو ہمارے لائق ہی نہ تھا ، تیری ذات اس سے بہت پاک اور برتر ہے کہ کوئی تیرا شریک ہو ۔ چنانچہ اور آیت میں صرف فرشتوں سے اس سوال جواب کا ہونا بھی بیان ہوا ہے ۔ نتخذ کی دوسری قرأت نتخذ بھی ہے یعنی یہ کسی طرح نہیں ہوسکتا تھا ، نہ یہ ہمارے لائق تھا کہ لوگ ہمیں پوجنے لگیں اور تیری عبادت چھوڑ دیں ۔ کیونکہ ہم تو خود تیرے بندے ہیں ، تیرے در کے بھکاری ہیں ۔ مطلب دونوں صورتوں میں قریب قریب ایک ہی ہے ۔ ان کے بہکنے کی وجہ ہماری سمجھ میں تو یہ آتی ہے کہ انہیں عمریں ملیں ، ہی بہت کھانے پینے کو ملتا رہا بد مستی میں بڑھتے گئے یہاں تک کہ جو نصیحت رسولوں کی معرفت پہنچی تھی اسے بھلا دیا ۔ تیری عبادت سے اور سچی توحید سے ہٹ گئے ۔ یہ لوگ تھے یہ بےخبر ، ہلاکت کے گڑھے میں گر پڑے ۔ تباہ وبرباد ہوگئے بورا سے مطلب ہلاک والے ہی ہیں ۔ جیسے ابن زبعری نے اپنے شعر میں اس لفظ کو اس معنی میں باندھا ہے ۔ اب اللہ تعالیٰ ان مشرکوں سے فرمائے گا لو اب تو تمہارے یہ معبود خود تمہیں جھٹلا رہے ہیں تم تو انہیں اپنا سمجھ کر اس خیال سے کہ یہ تمہیں اللہ کے مقرب بنا دیں گے ان کی پوجا پاٹ کرتے رہے ، آج یہ تم سے کوسوں دور بھاگ رہے ہیں تم سے یکسو ہو رہے ہیں اور بیزاری ظاہر کررہے ہیں ۔ جیسے ارشاد ہے آیت ( وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ Ĉ۝ ) 46- الأحقاف:5 ) ، یعنی اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی چاہت پوری نہ کر سکیں بلکہ وہ تو ان کی دعا سے محض غافل ہیں اور محشر والے دن یہ سب ان سب کے دشمن ہوجائیں گے اور ان کی عبادتوں کے صاف منکر ہوجائیں گے ۔ پس قیامت کے دن یہ مشرکین نہ تو اپنی جانوں سے عذاب اللہ ہٹا سکیں گے اور نہ اپنی مدد کر سکیں گے نہ کسی کو اپنا مددگار پائیں گے ۔ تم میں سے جو بھی اللہ واحد کے ساتھ شرک کرے ہم اسے زبردست اور نہایت سخت عذاب کریں گے ۔