Surah

Information

Surah # 25 | Verses: 77 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 42 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 68-70, from Madina
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَكَ مِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَ اِلَّاۤ اِنَّهُمۡ لَيَاۡكُلُوۡنَ الطَّعَامَ وَيَمۡشُوۡنَ فِى الۡاَسۡوَاقِ‌ ؕ وَجَعَلۡنَا بَعۡضَكُمۡ لِبَعۡضٍ فِتۡنَةً  ؕ اَتَصۡبِرُوۡنَ‌ۚ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيۡرًا‏ ﴿20﴾
ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے اور ہم نے تم میں سے ہر ایک کو دوسرے کی آزمائش کا ذریعہ بنا دیا کیا تم صبر کروگے؟ تیرا رب سب کچھ دیکھنے والا ہے ۔
و ما ارسلنا قبلك من المرسلين الا انهم لياكلون الطعام و يمشون في الاسواق و جعلنا بعضكم لبعض فتنة اتصبرون و كان ربك بصيرا
And We did not send before you, [O Muhammad], any of the messengers except that they ate food and walked in the markets. And We have made some of you [people] as trial for others - will you have patience? And ever is your Lord, Seeing.
Hum ney aap say pehlay jitnay rasool bhejay sab kay sab khana bhi khatay thay aur bazaron mein bhi chaltay phirtay thay aur hum ney tum say her aik ko doosray ki aazmaeesh ka zariya bana diya. Kiya tum sabar kero gay? Tera rab sab kuch dekhney wala hai.
اور ( اے پیغمبر ) ہم نے تم سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے ، وہ سب ایسے تھے کہ کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے ، اور ہم نے تم لوگوں کو ایک دوسرے کی آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے ۔ بتاؤ کیا صبر کرو گے؟ ( ٥ ) اور تمہارا پروردگار ہر بات دیکھ رہا ہے ۔
اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب ایسے ہی تھے کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے ( ف۳٦ ) اور ہم نے تم میں ایک کو دوسرے کی جانچ کیا ہے ( ف۳۷ ) اور اے لوگو! کیا تم صبر کرو گے ( ف۳۸ ) اور اے محبوب! تمہارا رب دیکھتا ہے ( ف۳۹ )
اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، تم سے پہلے جو رسول بھی ہم نے بھیجے تھے وہ سب بھی کھانا کھانے والے اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے لوگ ہی تھے ۔ 29 دراصل ہم نے تم لوگوں کو ایک دوسرے کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنا دیا ہے ۔ 30 کیا تم صبر کرتے ہو؟ 31 تمہارا رب سب کچھ دیکھتا ہے ۔ 32 ؏ 2
اور ہم نے آپ سے پہلے رسول نہیں بھیجے مگر ( یہ کہ ) وہ کھانا ( بھی ) یقیناً کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی ( حسبِ ضرورت ) چلتے پھرتے تھے اور ہم نے تم کو ایک دوسرے کے لئے آزمائش بنایا ہے ، کیا تم ( آزمائش پر ) صبر کرو گے؟ اور آپ کا رب خوب دیکھنے والا ہے
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :29 یہ جواب ہے کفار مکہ کی اس بات کا جو وہ کہتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ اس موقع پر یہ بات ذہن میں رہے کہ کفار مکہ حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ علیہم السلام اور بہت سے دوسرے انبیاء سے نہ صرف واقف تھے ، بلکہ ان کی رسالت بھی تسلیم کرتے تھے ۔ اس لیے فرمایا گیا کہ آخر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ نرالا اعتراض کیوں اٹھا رہے ہو ؟ پہلے کونسا نبی ایسا آیا ہے جو کھانا نہ کھاتا ہو اور بازاروں میں نہ چلتا پھرتا ہو؟ اور تو اور ، خود عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ، جن کو عیسائیوں نے خدا کا بیٹا بنا رکھا ہے ( اور جن کا مجسمہ کفار مکہ نے بھی کعبہ میں رکھ چھوڑا تھا ) انجیلوں کے اپنے بیان کے مطابق کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :30 یعنی رسول اور اہل ایمان کے لیے منکرین آزمائش ہیں اور منکرین کے لیے رسول اور اہل ایمان ۔ منکرین نے ظلم و ستم اور جاہلانہ عداوت کی جو بھٹی گرم کر رکھی ہے وہی تو وہ ذریعہ ہے جس سے ثابت ہو گا کہ رسول اور اس کے صادق الایمان پیرو کھرا سونا ہیں ۔ کھوٹ جس میں بھی ہو گی وہ اس بھٹی سے بخیریت نہ گزر سکے گا ، اور اس طرح خالص اہل ایمان کا ایک چیدہ گروہ چھٹ کر نکل آئے گا جس کے مقابلے میں پھر دنیا کی کوئی طاقت نہ ٹھہر سکے گی ۔ یہ بھٹی گرم نہ ہو تو ہر طرح کے کھوٹے اور کھرے آدمی نبی کے گرد جمع ہو جائیں گے ، اور دین کی ابتدا ہی ایک خام جماعت سے ہو گی ۔ دوسری طرف منکرین کے لیے بھی رسول اور اصحاب رسول ایک سخت آزمائش ہیں ۔ ایک عام انسان کا اپنی ہی برادری کے درمیان سے یکایک نبی بنا کر اٹھا دیا جانا ، اس کے پاس کوئی فوج فرّا اور مال و دولت نہ ہونا ، اس کے ساتھ کلام الہٰی اور پاکیزہ سیرت کے سوا کوئی عجوبہ چیز نہ ہونا ، اس کے ابتدائی پیروؤں میں زیادہ تر غریبوں ، غلاموں اور نو عمر لوگوں کا شامل ہونا اور اللہ تعالیٰ کا ان چند مٹھی بھر انسانوں کو گویا بھیڑیوں کے درمیان بے سہارا چھوڑ دینا ، یہی وہ چھلنی ہے جو غلط قسم کے آدمیوں کو دین کی طرف آنے سے روکتی ہے اور صرف ایسے ہی لوگوں کو چھان چھان کر آگے گزارتی ہے جو حق کو پہچاننے والے اور راستی کو ماننے والے ہوں ۔ یہ چھلنی اگر نہ لگائی جاتی اور رسول بڑی شان و شوکت کے ساتھ آ کر تختِ فرماں روائی پر جلوہ گر ہوتا ، خزانوں کے منہ اس کے ماننے والوں کے لیے کھول دیے جاتے ، اور سب سے پہلے بڑے بڑے رئیس آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ پر بیعت کرتے ، تو آخر کونسا دنیا پرست اور بندہ غرض انسان اتنا احمق ہو سکتا تھا کہ اس پر ایمان لانے والوں میں شامل نہ ہو جاتا ۔ اس صورت میں تو راستی پسند لوگ سب سے پیچھے رہ جاتے اور دنیا کے طالب بازی لے جاتے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :31 یعنی اس مصلحت کو سمجھ لینے کے بعد کیا اب تم کو صبر آگیا کہ آزمائش کی یہ حالت اس مقصد خیر کے لیے نہایت ضروری ہے جس کے لیے تم کام کر رہے ہو؟ کیا اب تم وہ چوٹیں کھانے پر راضی ہو جو اس آزمائش کے دور میں لگنی ناگزیر ہیں ؟ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :32 اس کے دو معنی ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد ہیں ۔ ایک یہ کہ تمہارا رب جو کچھ کر رہا ہے کچھ دیکھ کر ہی کر رہا ہے ، اس کی نگری اندھیر نگری نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ جس خلوص اور راست بازی کے ساتھ اس کٹھن خدمت کو تم انجام دے رہے ہو وہ بھی تمہارے رب کی نگاہ میں ہے ۔ اور تمہاری مساعی خیر کا مقابلہ جن زیادتیوں اور بے ایمانیوں سے کیا جا رہا ہے وہ بھی اس سے کچھ چھپا ہوا نہیں ہے ۔ لہٰذا پورا اطمینان رکھو کہ نہ تم اپنی خدمات کی قدر سے محروم رہو گے اور نہ وہ اپنی زیادتیوں کے وبال سے بچے رہ جائیں گے ۔
کافر جو اس بات پر اعتراض کرتے تھے کہ نبی کو کھانے پینے اور تجارت بیوپار سے کیا مطلب ؟ اس کا جواب ہو رہا ہے کہ اگلے سب پیغمبر بھی انسانی ضرورتیں بھی رکھتے تھے کھانا پینا ان کے ساتھ بھی لگا ہوا تھا ۔ بیوپار ، تجارت اور کسب معاش وہ بھی کیا کرتے تھے یہ چیزیں نبوت کے خلاف نہیں ۔ ہاں اللہ تعالیٰ عزوجل اپنی عنایت خاص سے انہیں وہ پاکیزہ اوصاف نیک خصائل عمدہ اقوال مختار افعال ظاہر دلیلیں اعلیٰ معجزے دیتا ہے کہ ہر عقل سلیم والا ہر دانا بینا مجبور ہوجاتا ہے کہ ان کی نبوت کو تسلیم کر لے اور ان کی سچائی کو مان لے ۔ اسی آیت جیسی اور آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ 43؀ۙ ) 16- النحل:43 ) ، ہے ۔ یعنی تجھ سے پہلے بھی جتنے نبی آئے سب شہروں میں رہنے والے انسان ہی تھے ۔ اور آیت میں ہے ۔ ( وَمَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا يَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوْا خٰلِدِيْنَ Ď۝ ) 21- الأنبياء:8 ) ، ہم نے انہیں ایسے جثے نہیں بنارہے تھے کہ کھانے پینے سے وہ آزاد ہوں ۔ ہم تو تم میں سے ایک ایک کی آزمائش ایک ایک سے کر لیا کرتے ہیں تاکہ فرمانبردار اور نافرمان ظاہر ہوجائیں ۔ صابر اور غیر صابر معلوم ہوجائیں ۔ تیرا رب دانا وبینا ہے خوب جانتا ہے کہ مستحق نبوت کون ہے ؟ جیسے فرمایا آیت ( اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ۭسَيُصِيْبُ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَعَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا كَانُوْا يَمْكُرُوْنَ ١٢٤؁ ) 6- الانعام:124 ) منصب رسالت کی اہلیت کس میں ہے ؟ اسے اللہ ہی بخوبی جانتا ہے ۔ اسی کو اس کا علم ہے کہ مستحق ہدایت کون ہیں ؟ اور کون نہیں ؟ چونکہ اللہ کا ارادہ بندوں کا امتحان لینے کا ہے اس لئے نبیوں کو عموما معمولی حالت میں رکھتا ہے ورنہ اگر انہیں بکثرت دنیا دیتا ہے تو ان کے مال کے لالچ میں بہت سے ان کے ساتھ ہوجاتے ہیں تو پھر سچے جھوٹے مل جاتے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں خود تجھے اور تیری وجہ سے اور لوگوں کو آزمانے والا ہوں ۔ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں اگر میں چاہتا تو میرے ساتھ سونے چاندی کے پہاڑ چلتے رہتے اور صحیح حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی اور بادشاہ بننے میں اور نبی بننے میں اختیار دیا گیا ہے تو آپ نے بندہ اور نبی بننا پسند فرمایا ۔ فصلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی الہ واصحابہ اجمعین