Surah

Information

Surah # 25 | Verses: 77 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 42 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 68-70, from Madina
وَقَالَ الَّذِيۡنَ لَا يَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا لَوۡلَاۤ اُنۡزِلَ عَلَيۡنَا الۡمَلٰٓٮِٕكَةُ اَوۡ نَرٰى رَبَّنَا ؕ لَـقَدِ اسۡتَكۡبَرُوۡا فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ وَعَتَوۡ عُتُوًّا كَبِيۡرًا‏ ﴿21﴾
اور جنہیں ہماری ملاقات کی توقع نہیں انہوں نے کہا کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے؟ یا ہم اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھ لیتے ان لوگوں نے اپنے آپ کو ہی بہت بڑا سمجھ رکھا ہے اور سخت سرکشی کر لی ہے ۔
و قال الذين لا يرجون لقاءنا لو لا انزل علينا الملىكة او نرى ربنا لقد استكبروا في انفسهم و عتو عتوا كبيرا
And those who do not expect the meeting with Us say, "Why were not angels sent down to us, or [why] do we [not] see our Lord?" They have certainly become arrogant within themselves and [become] insolent with great insolence.
Aur jinhen humari mulaqat ki tawaqqa nahi unhon ney kaha kay hum per farishtay kiyon nahi utaray jatay? Ya hum apni aankhon say apnay rab ko dekh letay? Inn logon ney apnay aap ko ho boht bara samajh rakha hai aur sakht sirkashi ker li hai.
جن لوگوں کو یہ توقع ہی نہیں ہے کہ وہ ( کسی وقت ) ہم سے آملیں گے ، وہ یوں کہتے ہیں کہ : ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے؟ یا پھر ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہم خود اپنے پروردگار کو دیکھ لیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے دلوں میں اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھے ہوئے ہیں ۔ ( ٦ ) اور انہوں نے بڑی سرکشی اختیار کی ہوئی ہے ۔
اور بولے وہ جو ( ف٤۰ ) ہمارے ملنے کی امید نہیں رکھتے ہم پر فرشتے کیوں نہ اتارے ( ف٤۱ ) یا ہم اپنے رب کو دیکھتے ( ف٤۲ ) بیشک اپنے جی میں بہت ہی اونچی کھینچی ( سرکشی کی ) اور بڑی سرکشی پر آئے ( ف٤۳ )
جو لوگ ہمارے حضور پیش ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں ” کیوں نہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے جائیں؟ 33 یا پھر ہم اپنے رب کو دیکھیں ۔ 34 ” بڑا گھمنڈ لے بیٹھے یہ اپنے نفس میں 35 اور حد سے گزر گئے یہ اپنی سرکشی میں ۔
اور جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے یا ہم اپنے رب کو ( اپنی آنکھوں سے ) دیکھ لیتے ( تو پھر ضرور ایمان لے آتے ) ، حقیقت میں یہ لوگ اپنے دِلوں میں ( اپنے آپ کو ) بہت بڑا سمجھنے لگے ہیں اور حد سے بڑھ کر سرکشی کر رہے ہیں
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :33 یعنی اگر واقعی خدا کا ارادہ یہ ہے کہ ہم تک اپنا پیغام پہنچائے تو ایک نبی کو واسطہ بنا کر صرف اس کے پاس فرشتہ بھیج دینا کافی نہیں ہے ، ہر شخص کے پاس ایک فرشتہ آنا چاہیے جو اسے بتائے کہ تیرا رب تجھے یہ ہدایت دیتا ہے ۔ یا فرشتوں کا ایک وفد مجمع عام میں ہم سب کے سامنے آ جائے اور خدا کا پیغام پہنچا دے ۔ سورہ اَنعام میں بھی ان کے اس اعتراض کو نقل کیا گیا ہے : وَاِذَا جَآءَتْھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَآ اَوْتِیَ رُسُلُ اللہِ ؕ اَللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہ ۔ جب کوئی آیت ان کے سامنے پیش ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم ہرگز نہ مانیں گے جب تک کہ ہمیں وہی کچھ نہ دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا ہے ۔ حالانکہ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اپنا پیغام پہنچانے کا کیا انتظام کرے ( آیت 124 ) ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :34 یعنی اللہ میاں خود تشریف لے آئیں اور فرمائیں کہ بندو ، میری تم سے یہ التماس ہے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :35 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے : بڑی چیز سمجھ لیا اپنی دانست میں انہوں نے اپنے آپ کو ۔
تصدیق نبوت کے لئے احمقانہ شرائط کافر لوگ انکار نبوت کا ایک بہانہ یہ بھی بناتے تھے کہ اگر اللہ کو کوئی رسول بھیجنا ہی تھا کو کسی فرشتے کو کیوں نہ بھیجا ؟ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ وہ ایک بہانہ یہ بھی کرتے تھے آیت ( قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰي نُؤْتٰى مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ رُسُلُ اللّٰهِ ١٢٤؁ ) 6- الانعام:124 ) یعنی جب تک خود ہمیں وہ نہ دیا جائے جو رسولوں کو دیا گیا ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے ۔ مطلب یہ ہے کہ جسطرح نبیوں کے پاس اللہ کی طرف سے فرشتہ وحی لے کر آتا ہے ہمارے پاس بھی آئے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا مطالبہ یہ ہو کہ فرشتوں کو دیکھ لیں ۔ خود فرشتے آکر ہمیں سمجھائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کریں تو ہم آپ کو نبی مان لیں گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ کفار نے کہا آیت ( اَوْ تَاْتِيَ بِاللّٰهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِيْلًا 92۝ۙ ) 17- الإسراء:92 ) یعنی تو اللہ کو لے آ فرشتوں کو بنفس نفیس ہمارے پاس لے آ ۔ اس کی پوری تفسیر سورۃ سبحان میں گزر چکی ہے ۔ یہاں بھی ان کا یہی مطالبہ بیان ہوا ہے کہ یا تو ہمارے اوپر فرشتے اتریں یا ہم اپنے رب کو دیکھ لیں ۔ یہ بات اس لئے ان کی منہ سے نکلی کہ یہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگے تھے اور ان کا غرور حد سے بڑھ گیا تھا ۔ ان کی ایمان لانے کی نیت نہ تھی ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُوْنَ ١١١۝ ) 6- الانعام:111 ) ، یعنی اگر ہم ان فرشتوں کو بھی اتارتے اور ان سے مردے باتیں کرتے ، اس قسم کی اور بھی تمام چیزیں ہم ان کے سامنے کردیتے جب بھی انہی ایمان لانا نصیب نہ ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فرشتوں کو یہ دیکھیں گے لیکن اس وقت ان کے لئے ان کا دیکھنا کچھ سود مند نہ ہوگا اس سے مراد سکرات موت کا وقت ہے جب کہ فرشتے کافروں کے پاس آتے ہیں اور اللہ کے غضب اور جہنم کی آگ کی خبر انہیں سناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خبیث نفس تو خبیث اور ناپاک جسم میں تھا اب گرم ہواؤں ، گرم پانی اور نامبارک سایوں کی طرف چل ۔ وہ نکلنے سے کتراتی ہے اور بدن میں چھپتی پھرتی ہے اس پر فرشتے ان کے چہروں پر اور ان کی کمروں پر ضربیں مارتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ 93؀ ) 6- الانعام:93 ) یعنی کاش کہ تو ظالموں کو ان کی سکرات کے وقت دیکھتاجب کہ فرشتے انہیں مارنے کے لیے ہاتھ بڑھائے ہوئے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ اپنی جانیں نکالو آج تمیں ذلت کے عذاب چکھنے پڑیں گے ۔ کیونکہ تم اللہ تعالیٰ سے متعلق ناحق الزامات ترا شتے تھے ۔ اور اس کی آیتوں سے تکبر کرتے تھے ۔ مومنوں کا حال ان کے بالکل برعکس ہوگا وہ اپنی موت کے وقت خوشخبریاں سنائے جاتے ہیں اور ابدی مسرتوں کی بشارتیں دئیے جاتے ہیں جسیے فرمان ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَـقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ 13؀ۚ ) 46- الأحقاف:13 ) جنہوں نے اللہ کو اپنا رب کہا اور مانا پھر اس پر جمے رہے ان کے پاس ہمارے فرشتے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم نہ ڈرو اور نہ غم کرو ، ان جنتوں میں جانے کی خوشی مناؤ جن کا تمہیں وعدہ دیا جا تارہا ۔ ہم تمہارے والی ہیں دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی ، تم جو کچھ چاہوگے پاؤ گے اور جس چیز کی خواہش کروگے موجود ہوجائے گی بخشنے والے مہربان اللہ کی طرف سے یہ تمہاری میزبانی ہوگی ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ فرشتے مومن کی روح سے کہتے ہیں اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی تو اللہ تعالیٰ کے رحم اور رحمت کی طرف چل جو تجھ سے نارض نہیں ۔ سورۃ ابراہیم کی آیت ( يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ ۚ وَيُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِيْنَ ڐ وَيَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ 27؀ۧ ) 14- ابراھیم:27 ) کی تفسیر میں یہ سب حدیثیں مفصل بیان ہوچکی ہیں ۔ بعض نے کہا مراد اس سے قیامت کے دن فرشتوں کا دیکھنا ہو سکتا ہے کہ دونوں موقعوں پر فرشتوں کا دیکھنا مراد ہو اس میں ایک قول کی دوسرے قول سے نفی نہیں کیونکہ دونوں ہر نیک وبد فرشتوں کو دیکھیں گے مومنوں کو رحمت ورضوان کی خوشخبری کے ساتھ فرشتوں کا دیدار ہوگا اور کافروں کو لعنت وپھٹکار اور عذابوں کی خبروں کے ساتھ فرشتے اس وقت ان کافروں سے صاف کہہ دیں گے کہ اب فلاح وبہبود تم پر حرام ہے ۔ حجر کے لفظی معنی روک ہیں چنانچہ قاضی جب کسی کو اس کی مفلسی یا حماقت یا بچپن کی وجہ سے مال کی تصرف سے روک دے تو کہتے ہیں حجر القاضی علی فلان ۔ حطیم کو بھی حجر کہتے ہیں اس لئے کہ وہ طواف کرنے والوں کو اپنے اندر طواف کرنے سے روک دیتا ہے بلکہ اس کے باہر سے طواف کیا جاتا ہے ۔ عقل کو بھی عربی میں حجر کہتے ہیں اس لئے وہ بھی انسانوں کو برے کاموں سے روک دیتی ہے ۔ پس فرشتے ان سے کہتے ہیں کہ جو خوش خبریاں مومنوں کو اس وقت ملتی ہیں اس سے تم محروم ہو ۔ یہ معنی تو اس بنا پر ہیں کہ اس جملے کو فرشتوں کا قول کہا جائے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ مقولہ اس وقت کافروں کا ہوگا وہ فرشتوں کو دیکھ کر کہیں گے کہ اللہ کرے تم ہم سے آڑ میں رہو تمہیں ہمارے پاس آنا نہ ملے ۔ گو یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں لیکن دور کے معنی ہیں ۔ بالخصوص اس وقت کہ جب اس کے خلاف وہ تفسیر جو ہم نے اوپر بیان کی اور سلف سے مروی ہے ۔ البتہ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے ایک قول ایسا مروی ہے لیکن انہی سے صراحت کے ساتھ یہ بھی مروی ہے کہ یہ قول فرشتوں کا ہوگا ، واللہ اعلم ۔ پھر قیامت کے دن اعمال کے حساب کے وقت ان کے اعمال غارت واکارت ہوجائیں گے ۔ یہ جنہیں اپنی نجات کا ذریعہ سمجھے ہوئے تھے وہ بیکار ہوجائیں گے کیونکہ یا تو وہ خلوص والے نہ تھے یا سنت کے مطابق نہ تھے ۔ اور جو عمل ان دونوں سے یا ان میں سے ایک چیز سے خالی ہو وہ اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں ۔ اس لیے کافروں کے نیک اعمال بھی مردود ہیں ۔ ہم نے ان کے اعمال کا ملاحظہ کیا اور ان کو مثل بکھرے ہوئے ذروں کے مثل کردیا کہ وہ سورج کی شعاعیں جو کسی سوراخ سے آرہی ہوں ان میں نظر تو آتے ہیں لیکن کوئی انہیں پکڑنا چاہئے تو ہاتھ نہیں آتے ۔ جس طرح پانی جو زمین پر بہا دیا جائے وہ پھر ہاتھ نہیں آسکتا ۔ یا غبار جو ہاتھ نہیں لگ سکتا ۔ یا درختوں کے پتوں کا چورا جو ہوا میں بکھر گیا ہو یاراکھ اور خاک جو اڑتی پھرتی ہو ۔ اسی طرح ان کے اعمال ہیں جو محض بیکار ہوگئے ان کا کوئی ثواب ان کے ہاتھ نہیں لگے گا ۔ اس لئے کہ یا تو ان میں خلوص نہ تھا یا شریعت کے مطابقت نہ تھی یا دونوں وصف نہ تھے ۔ پس جب یہ عالم وعادل حاکم حقیقی کے سامنے پیش ہوئے تو محض نکمے ثابت ہوئے اسی لئے اسے ردی اور نہ ہاتھ لگنے والی شے سے تشبیہ دی گئی جیسے اور جگہ ہے ۔ آیت ( مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ 18؀ ) 14- ابراھیم:18 ) کافروں کے اعمال کی مثال راکھ جیسی ہے جسے تیز ہوا اڑادے ۔ انسان کی نیکیاں بعض بدیوں سے بھی ضائع ہوجاتی ہیں جیسے صدقہ خیرات کہ وہ احسان جتانے اور تکلیف پہنچانے سے ضائع ہوجاتا ہے جیسے فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى ٢٦٤؁ ) 2- البقرة:264 ) پس ان کے اعمال میں سے آج یہ کسی عمل پر قادر نہیں ۔ اور آیت میں ان کے اعمال کی مثال اس ریت کے ٹیلے سے دی گئی جو دور سے مثل دریا کے لہریں مارتا ہوا دکھائی دیتا ہے جسے دیکھ کر پیاسا آدمی پانی سمجھتا ہے لیکن پاس آتا ہے تو امید ٹوٹ جاتی ہے ۔ اس کی تفسیر بھی اللہ کے فضل سے گزر چکی ہے ۔ پھر فرمایا کہ ان کے مقابلے میں جنتیوں کی بھی سن لو کیونکہ یہ دونوں فریق برابر کے نہیں ۔ جنتی تو بلند درجوں میں اعلیٰ بالاخانوں میں امن وامان ، راحت وآرام کے ساتھ عیش وعشرت میں ہونگے ۔ مقام اچھا ، منظر دل پسند ، ہر راحت موجود ، ہر دل خوش کن چیز سامنے ، جگہ اچھی ، مکان طیب ، منزل مبارک سونے بیٹھنے رہنے سہنے کا آرام ، برخلاف اس کے جہنمی دوزخ کے نیچے کے طبقوں میں جکڑ بند ، اوپر نیچے ، دائیں بائیں آگ ، حسرت افسوس ، رنج غم ، پکھنا ، جلنا ، بےقرار ، جگر سوز ، مقام بد ، بری منزل خوفناک منظر ، عذاب سخت ۔ نیک لوگوں کے جن کے دل میں ایمان تھا اعمال مقبول ہوئے ، اچھی جزائیں دی گئیں بدلے ملے ۔ جہنم سے بچے ، جنت کے وارث ومالک بنے ۔ پس یہ جو تمام بھلائیوں کو سمیٹ بیٹھے اور وہ جو ہر نیکی سے محروم رہے کہیں برابر ہوسکتے ہیں؟ پس نیکوں کی سعادت بیان فرما کر بدوں کی شقاوت پر تنبیہ کردی ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے کہ ساعت ایسی بھی ہوگی کہ جنتی اپنی حوروں کے ساتھ دن دوپہر کو آرام فرمائیں اور جہنمی شیطانوں کے ساتھ جکڑے ہوئے دوپہر کو گھبرائیں ۔ سعد بن جبیر کہتے ہیں اللہ تعالیٰ آدھے دن میں بندوں کے حساب سے فارغ ہوجائے گا پس جنتیوں کے لئے دوپہر کے سونے کا وقت جنت میں ہوگا اور دوزخیوں کا جہنم میں ۔ حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مجھے معلوم ہوا ہے کہ کس وقت جنتی جنت میں جائیں گے اور جہنمی جہنم میں ۔ یہ وہ وقت ہوگا جب یہاں دنیا میں دوپہر کا وقت ہوتا ہے کہ لوگ اپنے گھروں کو دو گھڑی آرام حاصل کرنے کی غرض سے لوٹتے ہیں ۔ جنتیوں کا یہ قیلولہ جنت میں ہوگا ۔ مچھلی کی کلیجی انہیں پیٹ بھر کر کھلائی جائے گی ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ دن آدھا ہو اس سے بھی پہلے جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں قیلولہ کریں گے پھر آپ نے یہی آیت پڑھی اور آیت ( ثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِيْمِ 68؀ ) 37- الصافات:68 ) بھی پڑھی ۔ جنت میں جانے والے صرف ایک مرتبہ جناب باری کے سامنے پیش ہونگے یہی آسانی سے حساب لینا پے پھر یہ جنت میں جاکر دوپہر کا آرام کریں گے جیسے فرمان اللہ ہے آیت ( فَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا Ċ۝ۙ ) 84- الانشقاق:7 ) یعنی جس شخص کو اپنا اعمال نامہ داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ اپنے والوں کی طرف خوشی خوشی لوٹے گا ۔ اس کا قیام اور منزل بہتر ہے ۔ صفوان بن ام حرز رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن دو شخصوں کو لایا جائے گا ایک تو وہ جو ساری دنیا کا بادشاہ تھا اس سے حساب لیا جائے گا تو اس کی پوری عمر میں ایک نیکی بھی نہ نکلے گی پس اسے جہنم کے داخلے کا حکم ملے گا پھر دوسرا شخص آئے گا جس نے ایک کمبل میں دنیا گزاری تھی جب اس سے حساب لیا جائے گا تو یہ کہے گا کہ اے اللہ میرے پاس دنیا میں تھا ہی کیا جس کا حساب لیا جائے گا ؟ اللہ فرمائے گا ۔ یہ سبچا ہے اسے چھوڑ دو ۔ اسے جنت میں جانے کی اجازت دی جائے گی ۔ پھر کچھ عرصے کے بعد دونوں کو بلایا جائے گا تو جہنمی بادشاہ تو مثل سوختہ کوئلے کے ہو گیا ہوگا ۔ اس سے پوچھا جائے گا کہو کس حال میں ہو یہ کہے گا نہایت برے حال میں اور نہایت خراب جگہ میں ہوں ۔ پھر جنتی کو بلایا جائے گا اس کا چہرہ چودہویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ہوگا ۔ اس سے پوچھا جائے گا کہو کیسی گزرتی ہے؟ یہ کہے گا الحمدللہ بہت اچھی اور نہایت بہتر جگہ میں ہوں ۔ اللہ فرمائے گا جاؤ اپنی اپنی جگہ پھر چلے جاؤ ۔ حضرت سعید صواف رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ مومن پر تو قیامت کا دن ایسا چھوٹا ہوجائے گا جیسے عصر سے مغرب تک کا وقت ۔ یہ جنت کی کیاریوں میں پہنچا دئیے جائیں گے ۔ یہاں تک کہ اور مخلوق کے حساب ہوجائیں ۔ پس جنتی بہتر ٹھکانے والے اور عمدہ جگہ والے ہونگے ۔