Surah

Information

Surah # 25 | Verses: 77 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 42 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 68-70, from Madina
وَيَوۡمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ بِالۡـغَمَامِ وَنُزِّلَ الۡمَلٰٓٮِٕكَةُ تَنۡزِيۡلًا‏ ﴿25﴾
اور جس دن آسمان بادل سمیت پھٹ جائیگا اور فرشتے لگا تار اتارے جائیں گے ۔
و يوم تشقق السماء بالغمام و نزل الملىكة تنزيلا
And [mention] the Day when the heaven will split open with [emerging] clouds, and the angels will be sent down in successive descent.
Aur jiss din aasman badal samet phat jayega aur farishtay laga taar utaray jayengay.
اور جس دن آسمان پھٹ کر ایک بادل کو راہ دے گا ، اور فرشتے اس طرح اتارے جائیں گے کہ ان کا تار بندھ جائے گا ۔
اور جس دن پھٹ جائے گا آسمان بادلوں سے اور فرشتے اتارے جائیں گے پوری طرح ( ف۵۰ )
آسمان کو چیرتا ہوا ایک بادل اس روز نمودار ہوگا اور فرشتوں کے پرے کے پرے اتار دیے جائیں گے ۔
اور اس دن آسمان پھٹ کر بادل ( کی طرح دھوئیں ) میں بدل جائے گا اور فرشتے گروہ در گروہ اتارے جائیں گے
فیصلوں کا دن قیامت کے دن جو ہولناک امور ہونگے ان میں سے ایک آسمان کا پھٹ جانا اور نورانی ابر کا نمودار ہونا بھی ہے جس کی روشنی سے آنکھیں چکا چوند ہوجائیں گی پھر فرشتے اتریں گے اور میدان محشر میں تمام انسانوں کو گھیر لیں گے ۔ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں میں فیصلے کے لئے تشریف لائے گا ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ اَمْرُ رَبِّكَ 33؀ ) 16- النحل:33 ) یعنی کہ انہیں اس بات کا انتظار ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بادلوں میں آئیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق کو سب انسانوں اور کل جنات کو ایک میدان میں جمع کرے گا ۔ تمام جانور چوپائے درندے پرندے اور کل مخلوق وہاں ہوگی پھر آسمان اول پھٹے گا اور اس کے فرشتے اتریں گے جو تمام مخلوق کو دو طرف سے گھیرلیں گے اور وہ گنتی میں بہت زیادہ ہونگے پھر دوسرا آسمان پھٹے گا اسکے فرشتے بھی آئیں گے جو زمین کی اور آسمان اول کی تمام مخلوق کی گنتی سے بھی زیادہ ہونگے ۔ پھر تیسرا آسمان شق ہوگا اس کے فرشتے بھی دونوں آسمانوں کے فرشتے مل کر زمین کی مخلوق سے بھی زیادہ ہونگے سب کو گھیر کر کھڑے ہو جائیں گے ۔ پھر اسی طرح چوتھا پانچواں پھر چھٹا پھر ساتواں پھر ہمارا رب ابر کے سائے میں تشریف لائے گا اسکے ارد گرد بزرگ تر پاک فرشتے ہونگے جو ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کی کل مخلوق سے بھی زیادہ ہونگے ان پر سینگوں جیسے نشان ہونگے ، وہ اللہ کے عرش کے نیچے اللہ کی تسبیح وتہلیل وتقدس بیان کریں گے ، ان کے تلوے سے لے کر ٹخنے تک کا فاصلہ پانچ سو سال کا راستہ ہوگا اور ٹخنے سے گھٹنے تک کا بھی اتناہی ۔ اور گھٹنے سے ناف تک کا بھی اتنا ہی فاصلہ ہوگا ۔ اور ناف سے گردن کا فاصلہ بھی اتنا ہوگا اور گردن سے کان کی لو تک بھی اتنا فاصلہ ہوگا اور اس کے اوپر سے سر تک کا بھی اتنا فاصلہ ہوگا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ قیامت کا نام یوم التلاق اسی لئے ہے کہ اس میں زمین اور آسمان والے ملیں گے انہیں دیکھ پہلے تو محشر والے سمجھ لیں گے کہ ہمارا اللہ آیا لیکن فرشتے سمجھا دیں گے کہ وہ آنے والا ہے ابھی تک نازل نہیں ہوا ۔ پھر جب کہ ساتوں آسمانوں کے فرشتے آجائیں گے اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر تشریف لائے گا جسے آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں جن کے ٹخنے سے گٹھنے تک سر سال کا راستہ ہے اور ران اور مونڈھے کے درمیان بھی ستر سال کا راستہ ہے ہر فرشتہ دوسرے سے علیحدہ اور جداگانہ ہے ہر ایک کی ٹھوڑی سینے سے لگی ہوئی ہے اور زبان پر سبحان الملک القدوس کا وظیفہ ہے ۔ انکے سروں پر ایک پھیلی ہوئی ہے جیسے سرخ شفق اسکے اوپر عرش ہوگا ۔ اس میں راوی علی بن زید بن جدعان ہیں جو ضعیف ہیں اور بھی اس حدیث میں بہت سی خامیاں ہیں ۔ صور کی مشہور حدیث میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے ۔ واللہ اعلم اور آیت میں ہے کہ اس دن ہوپڑنے والی ہوپڑے گی اور آسمان پھٹ کر روئی کی طرح ہوجائے گا ۔ اور اس کے کناروں پر فرشتے ہونگے اور اس دن تیرے رب کا عرش آٹھ فرشتے لئے ہوں گے ۔ شہر بن جوشب کہتے ہیں ان میں سے چار کی تسبیح تو یہ ہوگی دعا ( سبحانک اللہم وبحمدک لک الحمد علی حلمک بعد علمک ) اے اللہ تو پاک ہے تو قابل ستائش وتعریف ہے باوجود علم کے پھر بھی بردباری برتنا تیرا وصف ہے جس پر ہم تیری تعریف بیان کرتے ہیں ۔ اور چار کی تسبیح یہ ہوگی دعا ( سبحانک اللہم وبحمدک لک الحمد علی عفوک بعد قدرتک ) اے اللہ تو پاک ہے اور اپنی تعریفوں کیساتھ ہے تیرے ہی لئے سب تعریف ہے کہ تو باوجود قدرت کے معاف فرماتا رہتا ہے ۔ ابو بکر بن عبداللہ رحمتہ اللہ کہتے ہیں کہ عرش کو اترتا دیکھ کر اہل محشر کی آنکھیں پھٹ جائیں گی ، جسم کانپ اٹھیں گے ، دل لرز جائیں گے ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ فرماتے ہیں کہ جس وقت اللہ عزوجل مخلوق کی طرف اترے گا تو درمیان میں ستر ہزار پردے ہوگے بعض نور کے بعض ظلمت کے ۔ اس ظلمت میں سے ایک ایسی آواز نکلے گی جس سے دل پاش پاش ہوجائیں گے شاید ان کی یہ روایت انہی دو تھیلوں میں سے لی ہوئی ہوگی ، واللہ اعلم ۔ اس دن صرف اللہ ہی کی بادشاہت ہوگی جیسے فرمان ہے آیت ( لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۭ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ 16؀ ) 40-غافر:16 ) آج ملک کس کے لئے ہے؟ صرف اللہ غالب وقہار کے لئے ۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ سے لپیٹ لے گا اور زمینوں کو اپنے دوسرے ہاتھ میں لے لے گا پھر فرمائے گا میں مالک ہوں میں فیصلہ کرنے والا ہوں زمین کے بادشاہ کہاں ہیں ؟ تکبر کرنے والے کہاں ہیں؟ وہ دن کفار پر بڑا بھاری پڑا ہوگا ۔ اسی کا بیان اور جگہ بھی ہے کہ کافروں پر وہ دن گراں گزرے گا ۔ ہاں مومنوں کو اس دن مطلق گھبراہٹ یا پریشانی نہ ہوگی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پچاس ہزار سال کا دن تو بہت ہی دراز ہوگا ۔ آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مومن پر تو وہ ایک وقت کی فرض نماز سے بھی ہلکا اور آسان ہوگا ۔ پیغمبر علیہ السلام کے طریقے اور آپ اور آپ کے لائے ہوئی کھلے حق سے ہٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ کے سوا دوسری راہوں پہ چلنے والے اس دن بڑے ہی نادم ہونگے اور حسرت وافسوس کے ساتھ اپنے ہاتھ چبائیں گے ۔ گو اس کا نزول عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں ہو یا کسی اور کے بارے میں لیکن حکم کے اعتبار سے یہ ہر ایسے ظالم کو شامل ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا 66؀ ) 33- الأحزاب:66 ) پوری دو آیتوں تک ۔ پس ہر ظالم قیامت کے دن پچھتائے گا اپنے ہاتھوں کو چبائے گا اور آہ و زاری کرکے کہے گا کاش کہ میں نے نبی کی راہ اپنائی ہوتی ۔ کاش کہ میں نے فلاں کی عقیدت مندی نہ کی ہوتی ۔ جس نے مجھے راہ حق سے گم کردیا ۔ امیہ بن خلف کا اور اس کے بھائی ابی بن خلف کا بھی یہی حال ہوگا اور انکے سوا اور بھی ایسے لوگوں کا یہ حال ہوگا ۔ کہے گا کہ اس نے مجھے ذکر یعنی قرآن سے بیگانہ کردیا حالانکہ وہ مجھ تک پہنچ چکا تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے شیطان انسان کو رسوا کرنے والا ہے ، وہ اسے ناحق کی طرف بلاتا ہے اور حق سے ہٹا دیتا ہے ۔