Surah

Information

Surah # 25 | Verses: 77 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 42 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 68-70, from Madina
وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَوۡلَا نُزِّلَ عَلَيۡهِ الۡـقُرۡاٰنُ جُمۡلَةً وَّاحِدَةً‌  ‌ۛۚ كَذٰلِكَ ‌ۛۚ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُـؤَادَكَ‌ وَرَتَّلۡنٰهُ تَرۡتِيۡلًا‏ ﴿32﴾
اور کافروں نے کہا اس پر قرآن سارا کا سارا ایک ساتھ ہی کیوں نہ اتارا گیا اسی طرح ہم نے ( تھوڑا تھوڑا کرکے ) اتارا تاکہ اس سے ہم آپ کا دل قوی رکھیں ، ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے ۔
و قال الذين كفروا لو لا نزل عليه القران جملة واحدة كذلك لنثبت به فؤادك و رتلنه ترتيلا
And those who disbelieve say, "Why was the Qur'an not revealed to him all at once?" Thus [it is] that We may strengthen thereby your heart. And We have spaced it distinctly.
Aur kafiron ney kaha kay iss per quran sara ka sara aik sath hi kiyon na utara gaya issi tarah hum ney ( thora thora ker kay ) utara takay iss say hum aap ka dil qavi rakhen hum ney issay thehar thehar ker hi parh sunaya hai.
اور یہ کافر لوگ کہتے ہیں کہ : ان پر سارا قرآن ایک ہی دفعہ میں کیوں نازل نہیں کردیا گیا؟ ( اے پیغمبر ) ہم نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ اس کے ذریعے تمہارا دل مضبوط رکھیں ۔ ( ١١ ) اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھوایا ہے ۔
اور کافر بولے قرآن ان پر ایک ساتھ کیوں نہ اتار دیا ( ف۵۸ ) ہم نے یونہی بتدریج سے اتارا ہے کہ اس سے تمہارا دل مضبوط کریں ( ف۵۹ ) اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا ( ف٦۰ )
منکرین کہتے ہیں ” اس شخص پر سارا قرآن ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیا گیا ؟ ” 44 ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں ، ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے رہیں 45 اور ﴿اسی غرض کے لیے ﴾ ہم نے اس کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے ۔
اور کافر کہتے ہیں کہ اس ( رسول ) پر قرآن ایک ہی بار ( یک جا کرکے ) کیوں نہیں اتارا گیا؟ یوں ( تھوڑا تھوڑا کر کے اسے ) تدریجاً اس لئے اتارا گیا ہے تاکہ ہم اس سے آپ کے قلبِ ( اطہر ) کو قوت بخشیں اور ( اسی وجہ سے ) ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا ہے ( تاکہ آپ کو ہمارے پیغام کے ذریعے بار بار سکونِ قلب ملتا رہے )
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :44 یہ کفار مکہ کا بڑا دل پسند اعتراض تھا جسے وہ اپنے نزدیک نہایت زور دار اعتراض سمجھ کر بار بار دہراتے تھے ، اور قرآن میں بھی اس کو متعدد مقامات پر نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے ( تفہیم القرآن ، جلد دوم ، النحل حواشی 101 تا 106 بنی اسرائیل ، حاشیہ 119 ) ان کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ اگر یہ شخص خود سوچ سوچ کر ، یا کسی سے پوچھ پوچھ کر اور کتابوں میں سے نقل کر کر کے یہ مضامین نہیں لا رہا ہے ، بلکہ یہ واقعی خدا کی کتاب ہے تو پوری کتاب اکٹھی ایک وقت میں کیوں نہیں آ جاتی ۔ خدا تو جانتا ہے کہ پوری بات کیا ہے جو وہ فرمانا چاہتا ہے ۔ وہ نازل کرنے والا ہوتا تو سب کچھ بیک وقت فرما دیتا ۔ یہ جو سوچ سوچ کر کبھی کچھ مضمون لایا جاتا ہے اور کبھی کچھ ، یہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ وحی اوپر سے نہیں آتی ، یہیں کہیں سے حاصل کی جاتی ہے ، یا خود گھڑ گھڑ کر لائی جاتی ہے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :45 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ سے ہم تمہارا دل مضبوط کرتے رہیں یا تمہاری ہمت بندھاتے رہیں ۔ الفاظ دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں اور دونوں ہی مراد بھی ہیں ۔ اس طرح ایک ہی فقرے میں قرآن کو بتدریج نازل کرنے کی بہت سی حکمتیں بیان کر دی گئی ہیں : 1: وہ لفظ بلفظ حافظہ میں محفوظ ہو سکے ، کیونکہ اس کی تبلیغ و اشاعت تحریری صورت میں نہیں بلکہ ایک اَن پڑھ نبی کے ذریعہ سے ان پڑھ قوم میں زبانی تقریر کی شکل میں ہو رہی ہے ۔ 2 : اس کی تعلیمات اچھی طرح ذہن نشین ہو سکیں ۔ اس کے لیے ٹھہر ٹھہر کر تھوڑی تھوڑی بات کہنا اور ایک ہی بات کو مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے بیان کرنا زیادہ مفید ہے ۔ 3: اس کے بتائے ہوئے طریق زندگی پر دل جمتا جائے ۔ اس کے لیے احکام و ہدایات کا بتدریج نازل کرنا زیادہ مبنی بر حکمت ہے ، ورنہ اگر سارا قانون اور پورا نظام حیات بیک وقت بیان کر کے اس قائم کرنے کا حکم دے دیا جائے تو ہوش پراگندہ ہو جائیں ۔ علاوہ بریں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر حکم اگر مناسب موقع پر دیا جائے تو اس کی حکمت اور روح زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے ، بہ نسبت اس کے کہ تمام احکام دفعہ وار مرتب کر کے بیک وقت دے دیے گئے ہوں ۔ 4: تحریک اسلامی کے دوران میں جبکہ حق اور باطل کی مسلسل کشمکش چل رہی ہو ، نبی اور اس کے پیروؤں کی ہمت بندھائی جاتی رہے اس کے لیے خدا کی طرف سے بار بار ، وقتاً فوقتاً ، موقع بموقع پیغام آنا زیادہ کار گر ہے بہ نسبت اس کے کہ بس ایک دفعہ ایک لمبا چوڑا ہدایت نامہ دے کر عمر بھر کے لیے دنیا بھر کی مزاحمتوں کا مقابلہ کرنے کو یونہی چھوڑ دیا جائے ۔ پہلی صورت میں آدمی محسوس کرتا ہے کہ جس خدا نے اس کام پر مامور کیا ہے ، وہ اس کی طرف متوجہ ہے ، اس کے کام سے دلچسپی لے رہا ہے ، اس کے حالات پر نگاہ رکھتا ہے ، اس کی مشکلات میں رہنمائی کر رہا ہے ، اور ہر ضرورت کے موقع پر اسے شرف باریابی و مخاطبت عطا فرما کر اس کے ساتھ اپنے تعلق کا تازہ کرتا رہتا ہے ۔ یہ چیز حوصلہ بڑھانے والی اور عزم کو مضبوط رکھنے والی ہے دوسری صورت میں آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بس وہ ہے اور طوفان کی موجیں ۔
قرآن حکیم مختلف اوقات میں کیوں اتارا کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ جیسے توریت ، انجیل ، زبور ، وغیرہ ایک ساتھ پیغمبروں پر نازل ہوتی رہیں ۔ یہ قرآن ایک ہی دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیوں نہ ہوا ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہاں واقعی یہ متفرق طور پر اترا ہے ، بیس برس میں نازل ہوا ہے جیسے جیسے ضرورت پڑتی گئی جو جو واقعات ہوتے رہے احکام نازل ہوتے گئے تاکہ مومنوں کا دل جما رہے ۔ ٹھہر ٹھہر کر احکام اتریں تاکہ ایک دم عمل مشکل نہ ہوپڑے ، وضاحت کے ساتھ بیان ہوجائے ۔ سمجھ میں آجائے ۔ تفسیر بھی ساتھ ہی ساتھ ہوتی رہے ۔ ہم ان کے کل اعتراضات کا صحیح اور سچا جواب دیں گے جو ان کے بیان سے بھی زیادہ واضح ہوگا ۔ جو کمی یہ بیان کریں گے ہم ان کی تسلی کردیں گے ۔ صبح شام ، رات دن ۔ سفر حضر میں بار بار اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور اپنے خاص بندوں کی ہدایت کے لئے ہمارا کلام ہمارے نبی کی پوری زندگی تک اترتا رہا ۔ جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی اور فضلیت بھی ظاہر ہوتی رہی لیکن دوسرے انبیاء علیہم السلام پر ایک ہی مرتبہ سارا کلام اترا مگر اس سے بہترین نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تبارک وتعالیٰ باربار خطاب کرتا کہ اس قرآن کی عظمت بھی آشکار ہوجائے اس لیے یہ اتنی لمبی مدت میں نازل ہوا ۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی سب نبیوں میں اعلیٰ اور قرآن بھی سب کلاموں میں بالا ۔ اور لطیفہ یہ ہے کہ قرآن کو دونوں بزرگیاں ملیں یہ ایک ساتھ لوح محفوظ سے ملا اعلیٰ میں اترا ۔ لوح محفوظ سے پورے کا پورا دنیا کے آسمان تک پہنچا ۔ پھر حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوتا رہا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں سارا قرآن ایک دفعہ ہی لیلۃ القدر میں دنیا کے آسمان پر نازل ہوا پھر بیس سال تک زمین پر اترتا رہا ۔ پھر اس کے ثبوت میں آپ نے آیت ( وَلَا يَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِيْرًا 33؀ۭ ) 25- الفرقان:33 ) اور آیت ( وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَي النَّاسِ عَلٰي مُكْثٍ وَّنَزَّلْنٰهُ تَنْزِيْلًا ١٠٦؁ ) 17- الإسراء:106 ) تلاوت فرمائی ۔ اس کے بعد کافروں کی جو درگت قیامت کے روز ہونے والی ہے اس کا بیان فرمایا کہ بدترین حالت اور قبیح تر ذلت میں ان کا حشر جہنم کی طرف ہوگا ۔ یہ اوندھے منہ گھسیٹے جائیں گے یہی برے ٹھکانے والے اور سب سے بڑھ کر گمراہ ہیں ۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کافروں کا حشر منہ کے بل کیسے ہوگا ؟ آپ نے فرمایا کہ جس نے انہیں پیر کے بل چلایا وہ سر کے بل چلانے پر بھی قادر ہے ۔