Surah

Information

Surah # 25 | Verses: 77 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 42 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 68-70, from Madina
وَلَقَدۡ اٰتَيۡنَا مُوۡسَى الۡكِتٰبَ وَجَعَلۡنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوۡنَ وَزِيۡرًا‌ ۖ‌ ۚ‏ ﴿35﴾
اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے ہمراہ ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر بنا دیا ۔
و لقد اتينا موسى الكتب و جعلنا معه اخاه هرون وزيرا
And We had certainly given Moses the Scripture and appointed with him his brother Aaron as an assistant.
Aur bila shuba hum ney musa ko kitab di aur unn kay humrah unn kay bhai haroon ko unn ka wazir bana diya.
بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی ، اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون کو مددگار کے طور پر مقرر کیا تھا ۔
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور اس کے بھائی ہارون کو وزیر کیا ،
ہم نے موسی ( علیہ السلام ) کو کتاب 48 دی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون ( علیہ السلام ) کو مددگار کے طور پر لگایا
اور بیشک ہم نے موسٰی ( علیہ السلام ) کو کتاب عطا فرمائی اور ہم نے ان کے ساتھ ( ان کی معاونت کے لئے ) ان کے بھائی ہارون ( علیہ السلام ) کو وزیر بنایا
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :48 یہاں کتاب سے مراد غالباً وہ کتاب نہیں جو توراۃ کے نام سے معروف ہے اور مصر سے نکلنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تھی ، بلکہ اس سے مراد وہ ہدایات ہیں جو نبوت کے منصب پر مامور ہونے کے وقت سے لے کر خروج تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی جاتی رہیں ۔ ان میں وہ خطبے بھی شامل ہیں جو حضرت موسیٰ نے فرعون کے دربار میں دیے ، اور وہ ہدایات بھی شامل ہیں جو فرعون کے خلاف جدوجہد کے دوران میں آپ کو دی جاتی رہیں ۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ ان چیزوں کا ذکر ہے ، مگر اغلب یہ ہے کہ یہ چیزیں توراۃ میں شامل نہیں کی گئیں ۔ توراۃ کا آغاز ان احکام عشر سے ہوتا ہے جو خروج کے بعد طور سینا پر سنگین کتبوں کی شکل میں آپ کو دیے گئے تھے ۔
انبیاء سے دشمنی کا خمیازہ اللہ تعالیٰ مشرکین کو اور آپ کے مخالفین کو اپنے عذابوں سے ڈرا رہا ہے کہ تم سے پہلے کے جن لوگوں نے میرے نبیوں کی نہ مانی ، ان سے دشمنی کی ان کی مخالفت کی میں نے انہیں تہس نہس کردیا ۔ فرعونیوں کا حال تم سن چکے ہو کہ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو ان کی طرف نبی بنا کر بھیجا لیکن انہوں نے نہ مانا جس کے باعث اللہ کا عذاب آ گیا اور سب ہلاک کر دیئے گئے ۔ قوم نوح کو دیکھو انہوں نے بھی ہمارے رسولوں کو جھٹلایا اور چونکہ ایک رسول کا جھٹلانا تمام نبیوں کو جھٹلانا ہے اس واسطے یہاں رسل جمع کر کے کہا گیا ۔ اور یہ اس لیے بھی کہ اگر بالفرض ان کی طرف تمام رسول بھی بھیجے جاتے تو بھی یہ سب کے ساتھ وہی سلوک کرتے جو نوح علیہ السلام نبی کے ساتھ کیا ۔ یہ مطلب نہیں کہ انکی طرف بہت سے رسول بھیجے گئے تھے بلکہ ان کے پاس تو صرف حضرت نوح علیہ السلام ہی آئے تھے جو ساڑھے نو سو سال تک ان میں رہے ہر طرح انہیں سمجھایا بجھایا لیکن سوائے معدودے چند کے کوئی ایمان نہ لایا ۔ اس لئے اللہ نے سب کو غرق کر دیا ۔ سوائے ان کے جو حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں تھے ایک بنی آدم روئے زمین پر نہ بچا ۔ لوگوں کے لئے انکی ہلاکت باعث عبرت بنادی گئی ۔ جیسے فرمان ہے کہ پانی کی ظغیانی کے وقت ہم نے تمہیں کشی میں سوار کرلیا تاکہ تم اسے اپنے لئے باعث عبرت بناؤ اور کشتی کو ہم نے تمہارے لیے اس طوفان سے نجات پانے اور لمبے لمبے سفر طے کرنے کا ذریعہ بنادیا تاکہ تم اللہ کی اس نعمت کو یاد رکھو کہ اس نے عالمگیر طوفان سے تمہیں بچالیا اور ایماندار اور ایمان داروں کی اولاد میں رکھا ۔ عادیوں اور ثمودیوں کا قصہ تو بارہا بیان ہوچکا ہے جیسے کہ سورۃ اعراف وغیرہ میں اصحاب الرس کی بابت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا قول ہے کہ یہ ثمودیوں کی ایک بستی والے تھے ۔ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ خلیج والے تھے جن کا ذکر سورۃ یاسین میں ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ آذر بائی جان کے ایک کنویں کے پاس ان کی بستی تھی ۔ عکرمہ فرماتے ہیں کہ ان کو کنویں والے اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے پیغمبر کو کنویں میں ڈال دیا تھا ۔ ابن اسحاق رحمۃاللہ علیہ محمد بن کعب رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک سیاہ فام غلام سب سے اول جنت میں جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بستی والوں کی طرف اپنا نبی بھیجا تھا لیکن ان بستی والوں میں سے بجز اس کے کوئی بھی ایمان نہ لایا بلکہ انہوں نے اللہ کے نبی کو ایک غیر آباد کنویں میں ویران میدان میں ڈالدیا اور اس کے منہ پر ایک بڑی بھاری چٹان رکھ دی کہ یہ وہیں مرجائیں ۔ یہ غلام جنگل میں جاتا لکڑیاں کاٹ کر لاتا انہیں بازار میں فروخت کرتا اور روٹی وغیرہ خرید کر کنویں پر آتا اس پتھر کو سرکا دیتا ۔ یہ ایک رسی میں لٹکا کر روٹی اور پانی اس پیغمبر علیہ السلام کے پاس پہنچا دیتا جسے وہ کھاپی لیتے ۔ مدتوں تک یونہی ہوتا رہا ۔ ایک مرتبہ یہ گیا لکڑیاں کاٹیں ، چنیں ، جمع کیں ، گھٹری باندھی ، اتنے میں نیند کا غلبہ ہوا ، سوگیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر نیند ڈال دی ۔ سات سال تک وہ سوتا رہا ۔ سات سال کے بعد آنکھ کھلی ، انگڑائی لی اور کروٹ بدل کر پھر سورہا ۔ سات سال کے بعد پھر آنکھ کھلی تو اس نے لکڑیوں کی گھٹڑی اٹھائی اور شہر کی طرف چلا ۔ اسے یہی خیال تھا کہ ذرا سی دیر کے لئے سوگیا تھا ۔ شہر میں آکر لکڑیاں فروخت کیں ۔ حسب عادت کھانا خریدا اور وہیں پہنچا ۔ دیکھتا ہے کہ کنواں تو وہاں ہے ہی نہیں بہت ڈھونڈا لیکن نہ ملا ۔ درحقیقت اس عرصہ میں یہ ہوا تھا کہ قوم کے دل ایمان کی طرف راغب ہوئے ، انہوں نے جاکر اپنے نبی کو کنویں سے نکالا ۔ سب کے سب ایمان لائے پھر نبی فوت ہوگئے ۔ نبی علیہ السلام بھی اپنی زندگی میں اس غلام کو تلاش کرتے رہے لیکن اس کا پتہ نہ چلا ۔ پھر اس شخص کو نبی کے انتقال کے بعد اس کی نیند سے جگایا گیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پس یہ حبشی غلام ہے جو سب سے پہلے جنت میں جائے گا ۔ یہ روایت مرسل ہے اور اس میں غرابت ونکارت ہے اور شاید ادراج بھی ہے واللہ اعلم ۔ اس روایت کو ان اصحاب رس پر چسپاں بھی نہیں کر سکتے اس لئے کہ یہاں مذکور ہے کہ انہین ہلاک کیا گیا ۔ ہاں یہ ایک توجیہہ ہو سکتی ہے کہ یہ لوگ تو ہلاک کردئیے گئے پھر ان کی نسلیں ٹھیک ہوگئیں اور انہیں ایمان کی توفیق ملی ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ کا فرمان ہے کہ اصحاب رس وہی ہے جن کا ذکر سورۃ بروج میں ہے جنہوں نے خندقیں کھدائی تھیں ۔ واللہ اعلم ۔ پھر فرمایا کہ اور بھی ان کے درمیان بہت سی امتیں آئیں جو ہلاک کردی گئیں ۔ ہم نے ان سب کے سامنے اپنا کلام بیان کردیا تھا ۔ دلیلیں پیش کردی تھیں ۔ معجزے دکھائے تھے ، عذر ختم کردئے تھے پھر سب کو غارت اور برباد کردیا ۔ جیسے فرمان ہے کہ نوح علیہ السلام کے بعد کی بھی بہت سی بستیاں ہم نے غارت کردیں ۔ قرن کہتے ہیں امت کو ۔ جیسے فرمان ہے کہ ان کے بعد ہم نے بہت سی قرن یعنی امتیں پیدا کیں ۔ قرن کی مدت بعض کے نزدیک ایک سو بیس سال ہے کوئی کہتا ہے سو سال کوئی کہتا ہے اسی سال کوئی کہتا ہے چالیس سال اور بھی بہت سے قول ہیں ۔ زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ ایک زمانہ والے ایک قرن ہیں جب وہ سب مرجائیں تو دوسرا قرن شروع ہوتا ہے ۔ جیسے بخاری مسلم کی حدیث میں ہے سب سے بہتر زمانہ میرا زمانہ ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ سدوم نامی بستی کے پاس سے تو یہ عرب برابر گزرتے رہتے ہیں ۔ یہیں لوطی آباد تھے ۔ جن پر زمیں الٹ دی گئی اور آسمان سے پھتر برسائے گئے اور برا مینہ ان پر برسا جو سنگلاخ پتھروں کا تھا ۔ یہ دن رات وہاں سے آمدو رفت رکھتے پھر بھی عقلمندی کا کام نہیں لیتے ۔ یہ بستیاں تو تمہاری گزرگاہیں ہیں ان کے واقعات مشہور ہیں کیا تم انہیں نہیں دیکھتے ؟ یقینا دیکتھے ہو لیکن عبرت کی آنکھیں ہی نہیں کہ سمجھ سکو اور غور کرو کہ اپنی بدکاریوں کی وجہ سے وہ اللہ کے عذابوں کے شکار ہوگئے ۔ بس انہیں اڑادیا گیا بےنشان کردئے گئے ۔ بری طرح دھجیاں بکھیر دی گئیں ۔ اسے سوچے تو وہ جو قیامت کا قائل ہو ۔ لیکن انہیں کیا عبرت حاصل ہوگی جو قیامت ہی کے منکر ہیں ۔ دوبارہ زندگی کو ہی محال جانتے ہیں ۔