Surah

Information

Surah # 25 | Verses: 77 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 42 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 68-70, from Madina
وَلَقَدۡ اَتَوۡا عَلَى الۡقَرۡيَةِ الَّتِىۡۤ اُمۡطِرَتۡ مَطَرَ السَّوۡءِ‌ ؕ اَفَلَمۡ يَكُوۡنُوۡا يَرَوۡنَهَا ‌ۚ بَلۡ كَانُوۡا لَا يَرۡجُوۡنَ نُشُوۡرًا‏ ﴿40﴾
یہ لوگ اس بستی کے پاس سے بھی آتے جاتے ہیں جن پر بری طرح کی بارش برسائی گئی کیا یہ پھر بھی اسے دیکھتے نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ انہیں مر کر جی اٹھنے کی امید ہی نہیں ۔
و لقد اتوا على القرية التي امطرت مطر السوء افلم يكونوا يرونها بل كانوا لا يرجون نشورا
And they have already come upon the town which was showered with a rain of evil. So have they not seen it? But they are not expecting resurrection.
Yeh log uss basti kay pass say bhi aatay jatay hain jin per buri tarah ki barish barsaee gaee kiya yeh phir bhi issay dekhtay nahi? Haqeeqat yeh hai kay enhen marr ker ji uthney ki umeed hi nahi.
اور یہ ( کفار مکہ ) اس بستی سے ہو کر گذرتے رہے ہیں جس پر بری طرح ( پتھروں کی ) بارش برسائی گئی تھی ( ١٤ ) بھلا کیا یہ اس بستی کو دیکھتے نہیں رہے؟ ( پھر بھی انہیں عبرت نہیں ہوئی ) بلکہ ان کے دل میں دوسری زندگی کا اندیشہ تک پیدا نہیں ہوا ۔
اور ضرور یہ ( ف۷۱ ) ہو آئے ہیں اس بستی پر جس پر برا برساؤ برسا تھا ( ف۷۲ ) تو کیا یہ اسے دیکھتے نہ تھے ( ف۷۳ ) بلکہ انھیں جی اٹھنے کی امید تھی ہی نہیں ( ف۷٤ )
اور اس بستی پر تو ان کا گزر ہو چکا ہے جس پر بد ترین بارش برسائی گئی 53 تھی ۔ کیا انہوں نے اس کا حال دیکھا نہ ہوگا ؟ مگر یہ موت کے بعد دوسری زندگی کی توقع ہی نہیں رکھتے ۔ 54
اور بیشک یہ ( کفار ) اس بستی پر سے گزرے ہیں جس پر بری طرح ( پتھروں کی ) بارش برسائی گئی تھی ، تو کیا یہ اس ( تباہ شدہ بستی ) کو دیکھتے نہ تھے بلکہ یہ تو ( مرنے کے بعد ) اٹھائے جانے کی امید ہی نہیں رکھتے
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :53 یعنی قوم لوط کی بستی ۔ بدترین بارش سے مراد پتھروں کی بارش ہے جس کا ذکر کئی جگہ قرآن مجید میں آیا ہے ۔ اہل حجاز کے قافلے فلسطین و شام جاتے ہوئے اس علاقے سے گزرتے تھے اور نہ صرف تباہی کے آثار دیکھتے تھے بلکہ آس پاس کے باشندوں سے قوم لوط کی عبرت ناک داستانیں بھی سنتے رہتے تھے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :54 یعنی چونکہ یہ آخرت کے قائل نہیں ہیں اس لیے ان آثار قدیمہ کا مشاہدہ انہوں نے محض ایک تماشائی کی حیثیت سے کیا ، ان سے کوئی عبرت حاصل نہ کی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کے قائل کی نگاہ اور اس کے منکر کی نگاہ میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے ۔ ایک تماشا دیکھتا ہے ، یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ تاریخ مرتب کرتا ہے ۔ دوسرا انہی چیزوں سے اخلاقی سبق لیتا ہے اور زندگی سے ماوراء حقیقتوں تک رسائی حاصل کرتا ہے ۔