Surah

Information

Surah # 25 | Verses: 77 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 42 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 68-70, from Madina
وَاِذَا رَاَوۡكَ اِنۡ يَّتَّخِذُوۡنَكَ اِلَّا هُزُوًا ؕ اَهٰذَا الَّذِىۡ بَعَثَ اللّٰهُ رَسُوۡلًا‏ ﴿41﴾
اور تمہیں جب کبھی دیکھتے ہیں تو تم سے مسخر پن کرنے لگتے ہیں ۔ کہ کیا یہی وہ شخص ہیں جنہیں اللہ تعالٰی نے رسول بنا کر بھیجا ہے
و اذا راوك ان يتخذونك الا هزوا اهذا الذي بعث الله رسولا
And when they see you, [O Muhammad], they take you not except in ridicule, [saying], "Is this the one whom Allah has sent as a messenger?
Aur tumhen jab kabhi dekhtay hain to tum say maskhara pann kerney lagtay hain. Kay kiya yehi woh shaks hain jinehn Allah Taalaa ney rasool bana ker bheja hai.
اور ( اے پیغمبر ) جب یہ لوگ تمہیں دیکھتے ہیں تو ان کا کوئی کام اس کے سوا نہیں ہوتا کہ یہ تمہارا مذاق بناتے ہیں کہ : کیا یہی وہ صاحب ہیں جنہیں اللہ نے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے ؟
اور جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہیں نہیں ٹھہراتے مگر ٹھٹھا ( ف۷۵ ) کیا یہ ہیں جن کو اللہ نے رسول بناکر بھیجا ،
یہ لوگ جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں ۔ ﴿کہتے ہیں﴾ ” کیا یہ شخص ہے جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟
اور ( اے حبیبِ مکرّم! ) جب ( بھی ) وہ آپ کو دیکھتے ہیں آپ کا مذاق اڑانے کے سوا کچھ نہیں کرتے ( اور کہتے ہیں: ) کیا یہی وہ ( شخص ) ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے
انبیاء کا مذاق کافر لوگ اللہ کے برتر و بہتر پیغمبر حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر ہنسی مذاق اڑاتے تھے ، عیب جوئی کرتے تھے اور آپ میں نقصان بتاتے تھے ۔ یہی حالت ہر زمانے کے کفار کی اپنے نبیوں کے ساتھ رہی ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِيْنَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ 10 ؀ۧ ) 6- الانعام:10 ) تجھ سے پہلے کے رسولوں کا بھی مذاق اڑایا گیا ۔ کہنے لگے وہ تو کہئے کہ ہم جمے رہے ورنہ اس رسول نے ہمیں بہکانے میں کوئی کمی نہ رکھی تھی ۔ اچھا انہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ ہدایت پر یہ کہاں تک تھے؟ عذاب کو دیکھتے ہی آنکھیں کھل جائیں گی ۔ اصل یہ ہے کہ ان لوگوں نے خواہش پرستی شروع کر رکھی ہے نفس وشیطان جس چیز کو اچھا ظاہر کرتا ہے یہ بھی اسے اچھی سمجھنے لگتے ہیں ۔ بھلا ان کا ذمہ دار تو کیسے ٹھہر سکتا ہے؟ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جاہلیت میں عرب کی یہ حالت تھی کہ جہاں کسی سفید گول مول پتھر کو دیکھا اسی کے سامنے جھکنے اور سجدے کرنے لگے ۔ اس سے اچھا کوئی نظر پڑگیا تو اس کے سامنے جھک گئے ۔ اور اول کو چھوڑ دیا ۔ پھر فرماتا ہے یہ تو چوپایوں سے بھی بدتر ہیں نہ انکے کان ہیں نہ دل ہیں چوپائے تو خیر قدرتا آزاد ہیں لیکن یہ جو عبادت کے لئے پیدا کیے گئے تھے یہ ان سے بھی زیادہ بہک گئے بلکہ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے لگے ۔ اور قیام حجت کے بعد رسولوں کے پہنچ چکنے کے بعد بھی اللہ کی طرف نہیں جھکتے ۔ اس کی توحید اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو نہیں مانتے ۔