Surah

Information

Surah # 25 | Verses: 77 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 42 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 68-70, from Madina
اِنۡ كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنۡ اٰلِهَـتِنَا لَوۡ لَاۤ اَنۡ صَبَـرۡنَا عَلَيۡهَا‌ ؕ وَسَوۡفَ يَعۡلَمُوۡنَ حِيۡنَ يَرَوۡنَ الۡعَذَابَ مَنۡ اَضَلُّ سَبِيۡلًا‏ ﴿42﴾
۔ ( وہ تو کہئے ) کہ ہم اس پر جمے رہے ورنہ انہوں نے تو ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور یہ جب عذابوں کو دیکھیں گے تو انہیں صاف معلوم ہوجائے گا کہ پوری طرح راہ سے بھٹکا ہوا کون تھا؟
ان كاد ليضلنا عن الهتنا لو لا ان صبرنا عليها و سوف يعلمون حين يرون العذاب من اضل سبيلا
He almost would have misled us from our gods had we not been steadfast in [worship of] them." But they are going to know, when they see the punishment, who is farthest astray in [his] way.
( woh to kahiye ) kay hum iss per jama rahey werna enhon ney to humen humaray maboodon say behka denay mein koi kasar nahi chori thi. Aur yeh jab azabon ko dekhen gay to enhen saaf maloom hojaye ga kay poori tarah raah say bhatka hua kaun tha?
اگر ہم اپنے خداؤں ( کی عقیدت ) پر مضبوطی سے جمے نہ رہتے تو ان صاحب نے تو ہمیں ان سے بھٹکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔ ( جو لوگ یہ باتیں کہہ رہے ہیں ) جب انہیں عذاب آنکھوں سے نظر آجائے گا تب انہیں پتہ چلے گا کہ کون راستے سے بالکل بھٹکا ہوا تھا؟
قریب تھا کہ یہ ہمیں ہمارے خداؤں سے بہکا دیں اگر ہم ان پر صبر نہ کرتے ( ف۷٦ ) اور اب جانا چاہتے ہیں جس دن عذاب دیکھیں گے ( ف۷۷ ) کہ کون گمراہ تھا ( ف۷۸ )
اس نے تو ہمیں گمراہ کر کے اپنے معبودوں سے برگشتہ ہی کر دیا ہوتا اگر ہم ان کی عقیدت پر جم نہ گئے ہوتے 55 ۔ ” اچھا ، وہ وقت دور نہیں ہے جب عذاب دیکھ کر انہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کون گمراہی میں دور نکل گیا تھا ۔
قریب تھا کہ یہ ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکا دیتا اگر ہم ان ( کی پرستش ) پر ثابت قدم نہ رہتے اور وہ عنقریب جان لیں گے جس وقت عذاب دیکھیں گے کہ کون زیادہ گمراہ تھا
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :55 کفار کی یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں ۔ پہلی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کو حقیر سمجھ رہے ہیں ور مذاق اڑا کر آپ کی قدر گرنا چاہتے ہیں ، گویا ان کے نزدیک آنحضرت نے اپنی حیثیت سے بہت اونچا دعویٰ کر دیا تھا ۔ دوسری بات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کے دلائل کی قوت اور آپ کی شخصیت کا لوہا مان رہے ہیں اور بے ساختہ اعتراف کرتے ہیں کہ اگر ہم تعصب اور ہٹ دھرمی سے کام لے کر اپنے خداؤں کی بندگی پر جم نہ گئے ہوتے تو یہ شخص ہمارے قدم اکھاڑ چکا ہوتا ۔ یہ متضاد باتیں خود بتا رہی ہیں کہ اسلامی تحریک نے ان لوگوں کو کس قدر بوکھلا دیا تھا ۔ کھسیانے ہو کر مذاق بھی اڑاتے تھے تو احساس کمتری بلا ارادہ ان کی زبان سے وہ باتیں نکلوا دیتا تھا جن سے صاف ظاہر ہو جاتا تھا کہ دلوں میں وہ اس طاقت سے کس قدر مرعوب ہیں ۔