Surah

Information

Surah # 25 | Verses: 77 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 42 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 68-70, from Madina
وَالَّذِيۡنَ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا هَبۡ لَـنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعۡيُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِيۡنَ اِمَامًا‏ ﴿74﴾
اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا ۔
و الذين يقولون ربنا هب لنا من ازواجنا و ذريتنا قرة اعين و اجعلنا للمتقين اماما
And those who say, "Our Lord, grant us from among our wives and offspring comfort to our eyes and make us an example for the righteous."
Aur yeh dua kertay hain kay aey humaray perwerdigar! Tu humen humari biwiyon aur aulad say aankhon ki thandak ata farma aur humen perhezgaron ka paishwa bana.
اور جو ( دعا کرتے ہوئے ) کہتے ہیں کہ : ہمارے پروردگار ! ہمیں اپنی بیوی بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما ، اور ہمیں پرہیزگاروں کا سربراہ بنا دے ۔ ( ٢٩ )
اور وہ جو عرض کرتے ہیں ، اے ہمارے رب! ہمیں دے ہماری بیبیوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک ( ف۱۳٤ ) اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا ( ف۱۳۵ )
جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ ” اے ہمارے رب ، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک 92 دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام 93 بنا ” ۔ ۔ ۔ ۔
اور ( یہ ) وہ لوگ ہیں جو ( حضورِ باری تعالیٰ میں ) عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما ، اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :92 یعنی ان کو ایمان اور عمل صالح کی توفیق دے اور پاکیزہ اخلاق سے آراستہ کر ، کیونکہ ایک مومن کو بیوی بچوں کے حسن و جمال اور عیش و آرام سے نہیں بلکہ ان کی نیک خصالی سے ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے ۔ اس کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز تکلیف دہ نہیں ہو سکتی کہ جو دنیا میں اس کو سب سے زیادہ پیارے ہیں انہیں دوزخ کا ایندھن بننے کے لیے تیار ہوتے دیکھے ۔ ایسی صورت میں تو بیوی کا حسن اور بچوں کی جوانی و لیاقت اس کے لیے اور بھی زیادہ سوہان روح ہو گی ، کیونکہ وہ ہر وقت اس رنج میں مبتلا رہے گا کہ یہ سب اپنی ان خوبیوں کے باوجود اللہ کے عذاب میں گرفتار ہونے والے ہیں ۔ یہاں خاص طور پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ جس وقت یہ آیات نازل ہوئی ہیں وہ وقت وہ تھا جبکہ مکہ کے مسلمانوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس کے محبوب ترین رشتہ دار کفر و جاہلیت میں مبتلا نہ ہوں ۔ کوئی مرد ایمان لے آیا تھا تو اس کی بیوی ابھی کافر تھی ۔ کوئی عورت ایمان لے آئی تھی تو اس کا شوہر ابھی کافر تھا ۔ کوئی نوجوان ایمان لے آیا تھا تو اس کے ماں باپ اور بھائی بہن ، سب کے سب کفر میں مبتلا تھے ۔ اور کوئی باپ ایمان لے آیا تھا تو اس کے اپنے جوان جوان بچے کفر پر قائم تھے ۔ اس حالت میں ہر مسلمان ایک شدید روحانی اذیت میں مبتلا تھا اور اس کے دل سے وہ دعا نکلتی تھی جس کی بہترین ترجمانی اس آیت میں کی گئی ہے ۔ آنکھوں کی ٹھنڈک نے اس کیفیت کی تصویر کھینچ دی ہے کہ اپنے پیاروں کو کفر و جاہلیت میں مبتلا دیکھ کر ایک آدمی کو ایسی اذیت ہو رہی ہے جیسے اس کی آنکھیں آشوب چشم سے ابل آئی ہوں اور کھٹک سے سوئیاں سی چبھ رہی ہوں ۔ اس سلسلہ کلام میں ان کی اس کیفیت کو دراصل یہ بتانے کے لیے بیان کیا گیا ہے کہ وہ جس دین پر ایمان لائے ہیں پورے خلوص کے ساتھ لائے ہیں ۔ ان کی حالت ان لوگوں کی سی نہیں ہے جن کے خاندان کے لوگ مختلف مذہبوں اور پارٹیوں میں شامل رہتے ہیں اور سب مطمئن رہتے ہیں کہ چلو ، ہر بینک میں ہمارا کچھ نہ کچھ سرمایہ موجود ہے ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :93 یعنی ہم تقویٰ اور طاعت میں سب سے بڑھ جائیں ، بھلائی اور نیکی میں سب سے آگے نکل جائیں محض نیک ہی نہ ہوں بلکہ نیکوں کے پیشوا ہوں اور ہماری بدولت دنیا بھر میں نیکی پھیلے ۔ اس چیز کا ذکر بھی یہاں دراصل یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مال و دولت اور شوکت و حشمت میں نہیں بلکہ نیکی و پرہیز گاری میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مگر ہمارے زمانے میں کچھ اللہ کے بندے ایسے ہیں جنہوں نے اس آیت کو بھی امامت کی امیدواری اور ریاست کی طلب کے لیے دلیل جواز کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ ان کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ یا اللہ متقی لوگوں کو ہماری رعیت اور ہم کو ان کا حکمراں بنا دے ۔ اس سخن فہمی کی داد امیدواروں کے سوا اور کون دے سکتا ہے ۔