Surah

Information

Surah # 26 | Verses: 227 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 47 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 197 and 224-227, from Madina
فَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰى مُوۡسٰٓى اَنِ اضۡرِبْ بِّعَصَاكَ الۡبَحۡرَ‌ؕ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرۡقٍ كَالطَّوۡدِ الۡعَظِيۡمِ‌ۚ‏ ﴿63﴾
ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنی لاٹھی مار پس اسی وقت دریا پھٹ گیا اور ہر ایک حصہ پانی کا مثل بڑے پہاڑ کے ہوگیا ۔
فاوحينا الى موسى ان اضرب بعصاك البحر فانفلق فكان كل فرق كالطود العظيم
Then We inspired to Moses, "Strike with your staff the sea," and it parted, and each portion was like a great towering mountain.
Hum ney musa ki taraf wahee bheji kay darya per apni laathi maar pus ussi waqt darya phat gaya aur her aik hissa paani ka misil baray pahar kay hogaya.
چنانچہ ہم نے موسیٰ کے پاس وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو ۔ بس پھر سمندر پھٹ گیا ، اور ہر حصہ ایک بڑے پہاڑ کی طرح کھڑا ہوگیا ۔ ( ١٥ )
تو ہم نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ دریا پر اپنا عصا مار ( ف٦٤ ) تو جبھی دریا پھٹ گیا ( ف٦۵ ) تو ہر حصہ ہوگیا جیسے بڑا پہاڑ ( ف٦٦ )
ہم نے موسی ( علیہ السلام ) کو وحی کے ذریعہ سے حکم دیا کہ ” مار اپنا عصا سمندر پر ۔ ” یکایک سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہر ٹکڑا ایک عظیم الشان پہاڑ کی طرح ہوگیا ۔ 47
پھر ہم نے موسٰی ( علیہ السلام ) کی طرف وحی بھیجی کہ اپنا عصا دریا پر مارو ، پس دریا ( بارہ حصوں میں ) پھٹ گیا اور ہر ٹکڑا زبردست پہاڑ کی مانند ہو گیا
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :47 اصل الفاظ ہیں کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ ۔ طود عربی زبان میں کہتے ہی بڑے پہاڑ کو ہیں ۔ لسان العرب میں ہے الطود ، الجبل العظیم ۔ اس کے لیے پھر عظیم کی صفت لانے کے معنی یہ ہوئے کہ پانی دونوں طرف بہت اونچے پہاڑوں کی طرح کھڑا ہو گیا تھا ۔ پھر جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ سمندر حضرت موسیٰ کے عصا مارنے سے پھٹا تھا ، اور یہ کام ایک طرف بنی اسرائیل کے پورے قافلے کو گزارنے کے لیے کیا گیا تھا اور دوسری طرف اس سے مقصود فرعون کے لشکر کو غرق کرنا تھا ، تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عصا کی ضرب لگنے پر پانی نہایت بلند پہاڑوں کی شکل میں کھڑا ہو گیا اور اتنی دیر تک کھڑا رہا کہ ہزاروں لاکھوں بنی اسرائیل کا مہاجر قافلہ اس میں سے گزر بھی گیا اور پھر فرعون کا پورا لشکر ان کے درمیان پہنچ بھی گیا ۔ ظاہر ہے کہ عام قانون فطرت کے تحت جو طوفانی ہوائیں چلتی ہیں وہ خواہ کیسی ہی تند و تیز ہوں ، ان کے اثر سے کبھی سمندر کا پانی اس طرح عالی شان پہاڑوں کی طرح اتنی دیر تک کھڑا نہیں رہا کرتا ۔ اس پر مزید سورہ طٰہٰ کا یہ بیان ہے کہ : فَاضْرِبْ لَہُمْ طَرِیْقاً فِی الْبَحْرِ یَبَساً ، ان کے لیے سمندر میں سوکھا راستہ بنا دے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سمندر پر عصا مارنے سے صرف اتنا ہی نہیں ہوا کہ سمندر کا پانی ہٹ کر دونوں طرف پہاڑوں کی طرح کھڑا ہو گیا ، بلکہ بیچ میں جو راستہ نکلا وہ خشک بھی ہو گیا ، کوئی کیچڑ ایسی نہ رہی جو چلنے میں مانع ہوتی ۔ اس کے ساتھ سورہ دُخان آیت 24 کے یہ الفاظ بھی قابل غور ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو ہدایت فرمائی کہ سمندر پار کر لینے کے بعد اس کو اسی حال پر رہنے دے ، لشکر فرعون یہاں غرق ہونے والا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ اگر دوسرے ساحل پر پہنچ کر سمندر پر عصا مار دیتے تو دونوں طرف کھڑا ہوا پانی پھر مل جاتا ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا تا کہ لشکر فرعون اس راستے میں اتر آئے اور پھر پانی دونوں طرف سے آ کر اسے غرق کر دے ۔ یہ صریحاً ایک معجزے کا بیان ہے اور اس سے ان لوگوں کے خیال کی غلطی بالکل واضح ہو جاتی ہے جو اس واقعے کی تعبیر عام قوانین فطرت کے تحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، طٰہٰ ، حاشیہ 53 ) ۔