Surah

Information

Surah # 26 | Verses: 227 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 47 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 197 and 224-227, from Madina
وَاتۡلُ عَلَيۡهِمۡ نَبَاَ اِبۡرٰهِيۡمَ‌ۘ‏ ﴿69﴾
انہیں ابراہیم ( علیہ السلام ) کا واقعہ بھی سنا دو ۔
و اتل عليهم نبا ابرهيم
And recite to them the news of Abraham,
Enhen ibrahim ( alh-e-salam ) ka waqiya bhi suna do.
اور ( اے پیغمبر ) ان کو ابراہیم کا واقعہ سناؤ
اور ان پر پڑھو خبر ابراہیم کی ( ف۷٤ )
اور انہیں ابراہیم ( علیہ السلام ) کا قصہ سناؤ 50
اور آپ ان پر ابراہیم ( علیہ السلام ) کا قصہ ( بھی ) پڑھ کر سنا دیں
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :50 یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات طیبہ کے اس دور کا قصہ بیان ہوا ہے جبکہ نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد شرک و توحید کے مسئلے پر آپ کی اپنے خاندان اور اپنی قوم سے کشمکش شروع ہوئی تھی ۔ اس دور کی تاریخ کے مختلف گوشے قرآن مجید میں حسب ذیل مقامات پر بیان ہوئے ہیں : البقرہ رکوع 35 ۔ الانعام رکوع 9 ۔ مریم رکوع 3 ۔ الانبیاء رکوع 5 ۔ الصّٰفّٰت رکوع 3 ۔ الممتحنہ رکوع 1 ) ۔ سیرت ابراہیمی کے اس دور کی تاریخ خاص طور پر جس وجہ سے قرآن مجید بار بار سامنے لاتا ہے وہ یہ ہے کہ عرب کے لوگ بالعموم اور قریش بالخصوص اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا پیرو سمجھتے اور کہتے تھے اور یہ دعویٰ رکھتے تھے کہ ملت ابراہیمی ہی ان کا مذہب ہے ۔ مشرکین عرب کے علاوہ نصاریٰ اور یہود کا بھی یہ دعویٰ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے دین کے پیشوا ہیں ۔ اس پر قرآن مجید جگہ جگہ ان لوگوں کو متنبہ کرتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام جو دین لے کر آئے تھے وہ یہی خالص اسلام تھا جسے نبی عربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اور جس سے آج تم لوگ برسر پیکار ہو ۔ وہ مشرک نہ تھے بلکہ ان کی ساری لڑائی شرک ہی کے خلاف تھی اور اسی لڑائی کی بدولت انہیں اپنے باپ ، خاندان ، قوم ، وطن سب کو چھوڑ کر شام و فلسطین اور حجاز میں غریب الوطنی کی زندگی بسر کرنی پڑی تھی ۔ اسی طرح وہ یہودی و نصرانی بھی نہ تھے بلکہ یہودیت و نصرانیت تو ان کے صدیوں بعد وجود میں آئیں ۔ اس تاریخی استدلال کا کوئی جواب نہ مشرکین کے پاس تھا نہ یہود و نصاریٰ کے پاس ، کیونکہ مشرکین کو بھی یہ تسلیم تھا کہ عرب میں بتوں کی پرستش حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کئی صدی بعد شروع ہوئی تھی ، اور یہود و نصاریٰ بھی اس سے انکار نہ کر سکتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ یہودیت اور عیسائیت کی پیدائش سے بہت پہلے تھا ۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ جن مخصوص عقائد اور اعمال پر یہ لوگ اپنے دین کا مدار رکھتے ہیں وہ اس دین قدیم کے اجزاء نہیں ہیں جو ابتدا سے چلا آ رہا تھا ، اور صحیح دین وہی ہے جو ان آمیزشوں سے پاک ہو کر خالص خدا پرستی پر مبنی ہو ۔ اسی بنیاد پر قرآن کہتا ہے : مَا کَانَ اِبْرَاھِیْمُ یَھُوْدِیاً وَّ لَا نَصْرَانِیاً وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفاً مُّسْلِماً وَّ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ہ اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰھِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَھٰذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ اٰمِنُوْا مَعَہٗ ۔ ( آل عمران ۔ آیات 67 ۔ 68 ) ۔ ابراہیم نہ یہودی تھا نہ عیسائی بلکہ وہ تو ایک مسلم یکسو تھا ۔ اور وہ مشرکوں میں سے بھی نہ تھا ۔ درحقیقت ابراہیم علیہ السلام سے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق ان ہی لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں نے اس کے طریقے کی پیروی کی ( اور اب یہ حق ) اس نبی اور اس کے ساتھ ایمان لانے والوں کو ( پہنچتا ہے ) ۔
ابراہیم علیہ السلام علامت توحیدی پرستی تمام موحدوں کے باپ اللہ کے بندے اور رسول اور خلیل حضرت ابراہیم علیہ افضل التحیۃ والتسلیم کا واقعہ بیان ہو رہا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ اپنی امت کو یہ واقعہ سنادیں ۔ تاکہ وہ اخلاص توکل اور اللہ واحد کی عبادت اور شرک اور مشرکین سے بیزاری میں آپ کی اقتدا کریں ۔ آپ اول دن سے اللہ کی توحید پر قائم تھے اور آخر دن تک اسی توحید پر جمے رہے ۔ اپنی قوم سے اور اپنے باپ سے فرمایا کہ یہ بت پرستی کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو پرانے وقت سے ان بتوں کی مجاوری اور عبادت کرتے چلے آتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انکی اس غلطی کو ان پر وضح کرکے ان کی غلط روش بےنقاب کرنے کے لئے ایک بات اور بھی بیان فرمائی کہ تم جو ان سے دعائیں کرتے ہو اور دور نزدیک سے انہیں پکارتے ہو تو کیا یہ تمہاری پکار سنتے ہیں؟ یا جس نفع کے حاصل کرنے کے لئے تم انہیں بلاتے ہو وہ نفع تمہیں وہ پہنچاسکتے ہیں؟ یا اگر تم انکی عبادت چھوڑ دو تو کیا وہ تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ اس کا جواب جو قوم کی جانب سے ملا وہ صاف ظاہر ہے کہ انکے معبود ان کاموں میں سے کسی کام کو نہیں کرسکتے ۔ انہوں نے صاف کہا کہ ہم تو اپنے بڑوں کی وجہ سے بت پرستی پر جمے ہوئے ہیں ۔ اس کے جواب میں حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے ان سے اور ان کے معبودان باطلہ سے اپنی برات اور بیزاری کا اعلان کردیا ۔ صاف فرمادیا کہ تم اور تمہارے معبود سے میں بیزار ہوں ، جن کی تم اور تمہارے باپ دادا پرستش کرتے رہے ۔ ان سب سے میں بیزار ہوں وہ سب میرے دشمن ہیں میں صرف سچے رب العلمین کا پرستار ہوں ۔ میں موحد مخلص ہوں ۔ جاؤ تم سے اور تمہارے معبودوں سے جو ہوسکے کر لو ۔ حضرت نوح نبی علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا تم اور تمہارے سارے معبود مل کر اگر میرا کچھ بگاڑ سکتے ہوں تو کمی نہ کرو ۔ حضرت ہود علیہ السلام نے بھی فرمایا تھا میں تم سے اور تمہارے اللہ کے سوا باقی معبودوں سے بیزار ہوں تم سب اگر مجھے نقصان پہنچا سکتے ہو تو جاؤ پہنچالو ۔ میرا بھروسہ اپنے رب کی ذات پر ہے تمام جاندار اسکے ماتحت ہیں وہ سیدھی راہ والا ہے اسی طرح خلیل الرحمن علیہ صلوات الرحمن نے فرمایا کہ میں تمہارے معبودوں سے بالکل نہیں ڈرتا ۔ ڈر تو تمہیں میرے رب سے رکھنا چاہئے ۔ جو سچا ہے آپ نے اعلان کردیا تھا کہ جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ مجھ میں تم میں عداوت ہے ۔ میں اے باپ تجھ سے اور تیری قوم سے اور تیرے معبودوں سے بری ہوں ۔ صرف اپنے رب سے میری آرزو ہے کہ وہ مجھے راہ راست دکھلائے اسی کو یعنی لا الہ الا اللہ کو انہوں نے کلمہ بنالیا ۔