Surah

Information

Surah # 26 | Verses: 227 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 47 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 197 and 224-227, from Madina
فَاِنَّهُمۡ عَدُوٌّ لِّىۡۤ اِلَّا رَبَّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ‏ ﴿77﴾
بجز سچے اللہ تعالٰی کے جو تمام جہان کا پالنہار ہے ۔
فانهم عدو لي الا رب العلمين
Indeed, they are enemies to me, except the Lord of the worlds,
Ba-juz sachay Allah Taalaa kay jo tamam jahaan ka palanhaar hai.
میرے لیے تو یہ سب دشمن ہیں ، سوائے ایک رب العالمین کے
بیشک وہ سب میرے دشمن ہیں ( ف۷۸ ) مگر پروردگار عالم ( ف۷۹ )
میرے تو یہ سب دشمن ہیں 55 ، بجز ایک رب العالمین 56 کے ،
پس وہ ( سب بُت ) میرے دشمن ہیں سوائے تمام جہانوں کے رب کے ( وہی میرا معبود ہے )
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :55 یعنی میں جب غور کرتا ہوں تو مجھے یہ نظر آتا ہے کہ اگر میں ان کی پرستش کروں گا تو میری دنیا و آخرت دونوں برباد ہو جائیں گی ۔ میں ان کی عبادت کو محض بے نفع اور بے ضرر ہی نہیں سمجھتا بلکہ الٹا نقصان وہ سمجھتا ہوں ، اس لیے میرے نزدیک تو ان کو پوجنا دشمن کو پوجنا ہے ۔ اس کے علاوہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول میں اس مضمون کی طرف بھی اشارہ ہے جو سورہ مریم میں ارشاد ہوا کہ وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اٰلِھَۃً لِّیَکُوْنُوْا لَھُمْ عِزًّا ہ کَلَّا سَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہَمْ وَیَکُوْنُوْنَ عَلَیْھِمْ ضِدًّا ۔ ( آیت 81 ۔ 82 ) انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا لیے ہیں تاکہ وہ ان کے لیے ذریعہ قوت ہوں ۔ ہرگز نہیں ۔ عنقریب وہ وقت آئے گا جبکہ وہ ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے اور الٹے ان کے مخالف ہوں گے ۔ یعنی قیامت کے روز وہ ان کے خلاف گواہی دیں گے اور صاف کہہ دیں گے کہ نہ ہم نے ان سے کبھی کہا کہ ہماری عبادت کرو ، نہ ہمیں خبر کہ یہ ہماری عبادت کرتے تھے ۔ یہاں حکمت تبلیغ کا بھی ایک نکتہ قابل توجہ ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ تمہارے دشمن ہیں ، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ وہ میرے دشمن ہیں ۔ اگر وہ کہتے کہ یہ تمہارے دشمن ہیں تو مخاطب کے لیے ضد میں مبتلا ہو جانے کا زیادہ موقع تھا ۔ وہ اس بحث میں پڑ جاتا کہ بتاؤ ، وہ ہمارے دشمن کیسے ہو گئے ۔ بخلاف اس کے جب انہوں نے کہا کہ وہ میرے دشمن ہیں تو اس سے مخاطب کے لیے یہ سوچنے کا موقع پیدا ہو گیا کہ وہ بھی اسی طرح اپنے بھلے اور برے کی فکر کرے جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے کی ہے ۔ اس طریقہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے گویا ہر انسان کے اس فطری جذبے سے اپیل کی جس کی بنا پر وہ خود اپنا خیر خواہ ہوتا ہے اور جان بوجھ کر کبھی اپنا برا نہیں چاہتا ۔ انہوں نے اسے بتایا کہ میں تو ان کی عبادت میں سراسر نقصان دیکھتا ہوں ، اور دیدہ و دانستہ میں اپنی بد خواہی نہیں کر سکتا ، لہٰذا دیکھ لو کہ میں خود ان کی بندگی و پرستش سے قطعی اجتناب کرتا ہوں ۔ اس کے بعد مخاطب فطرۃً یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ اس کی اپنی بھلائی کس چیز میں ہے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ نادانستہ اپنی بد خواہی کر رہا ہو ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :56 یعنی تمام ان معبودوں میں سے ، جن کی دنیا میں بندگی و پرستش کی جاتی ہے ، صرف ایک اللہ رب العالمین ہے جس کی بندگی میں مجھے اپنی بھلائی نظر آتی ہے ، اور جس کی عبادت میرے نزدیک ایک دشمن کی نہیں بلکہ اپنے اصل مربی کی عبادت ہے ۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام چند فقروں میں وہ وجوہ بیان کرتے ہیں جن کی بنا پر صرف اللہ رب العالمین ہی عبادت کا مستحق ہے ، اور اس طرح اپنے مخاطبوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمہارے پاس تو معبودان غیر اللہ کی عبادت کے لیے کوئی معقول وجہ بجز تقلید آبائی کے نہیں ہے جسے تم بیان کر سکو ، مگر میرے پاس صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کے لیے نہایت معقول وجوہ موجود ہیں جن سے تم بھی انکار نہیں کر سکتے ۔