Surah

Information

Surah # 26 | Verses: 227 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 47 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 197 and 224-227, from Madina
رَبِّ هَبۡ لِىۡ حُكۡمًا وَّاَلۡحِقۡنِىۡ بِالصّٰلِحِيۡنَۙ‏ ﴿83﴾
اے میرے رب! مجھے قوت فیصلہ عطا فرما اور مجھے نیک لوگوں میں ملا دے ۔
رب هب لي حكما و الحقني بالصلحين
[And he said], "My Lord, grant me authority and join me with the righteous.
Aey meray rab! Mujhay qooat-e-faisla ata farma aur mujhay nek logon mein mila dey.
میرے پروردگار ! مجھے حکمت عطا فرما ، اور مجھے نیک لوگوں میں شامل فرمالے ۔
اے میرے رب مجھے حکم عطا کر ( ف۸٦ ) اور مجھے ان سے ملادے جو تیرے قرب خاص کے سزاوار ہیں ( ف۸۷ )
﴿اس کے بعد ابراہیم ( علیہ السلام ) نے دعا کی﴾ ” اے میرے رب ، مجھے حکم عطا کر ۔ 60 اور مجھ کو صالحوں کے ساتھ ملا ۔ 61
اے میرے رب! مجھے علم و عمل میں کمال عطا فرما اور مجھے اپنے قربِ خاص کے سزاواروں میں شامل فرما لے
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :60 حکم سے مراد نبوت یہاں درست نہیں ہے ، کیونکہ جس وقت کی یہ دعا ہے اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نبوت عطا ہو چکی تھی ۔ اور اگر بالفرض یہ دعا اس سے پہلے کی بھی ہو تو نبوت کسی کی طلب پر اسے عطا نہیں کی جاتی بلکہ وہ ایک وہبی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ خود ہی جسے چاہتا ہے دیتا ہے ۔ اس لیے یہاں حکم سے مراد علم ، حکمت ، فہم صحیح اور قوت فیصلہ ہی لینا درست ہے ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا قریب قریب اسی معنی میں ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ دعا منقول ہے کہ :اَرِنَا الْاَ شْیَآءَ کَمَاھِیَ یعنی ہم کو اس قابل بنا کہ ہم ہر چیز کو اسی نظر سے دیکھیں جیسی کہ وہ فی الواقع ہے اور ہر معاملہ میں وہی رائے قائم کریں جیسی کہ اس کی حقیقت کے لحاظ سے قائم کی جانی چاہیے ۔ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :61 یعنی دنیا میں مجھے صالح سوسائٹی دے اور آخرت میں میرا حشر صالحوں کے ساتھ کر ۔ جہاں تک آخرت کا تعلق ہے ، صالح لوگوں کے ساتھ کسی کا حشر ہونا اور اس کا نجات پانا گویا ہم معنی ہیں ، اس لیے یہ تو ہر اس انسان کی دعا ہونی ہی چاہیے جو حیات بعد الموت اور جزا و سزا پر یقین رکھتا ہو ۔ لیکن دنیا میں بھی ایک پاکیزہ روح کی دلی تمنا یہی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایک بد اخلاق فاسق و فاجر معاشرے میں زندگی بسر کرنے کی مصیبت سے نجات دے اور اس کو نیک لوگوں کے ساتھ ملائے ۔ معاشرے کا بگاڑ جہاں چاروں طرف محیط ہو وہاں ایک آدمی کے لیے صرف یہی چیز ہمہ وقت اذیت کی موجب نہیں ہوتی کہ وہ اپنے گردو پیش گندگی ہی گندگی پھیلی ہوئی دیکھتا ہے ، بلکہ اس کے لیے خود پاکیزہ رہنا اور اپنے آپ کو گندگی کی چھینٹوں سے بچا کر رکھنا بھی مشکل ہوتا ہے ۔ اس لیے ایک صالح آدمی اس وقت تک بے چین ہی رہتا ہے جب تک یا تو اس کا اپنا معاشرہ پاکیزہ نہ ہو جائے ، یا پھر اس سے نکل کر وہ کوئی دوسری ایسی سوسائیٹی نہ پا لے جو حق و صداقت کے اصولوں پر چلنے والی ہو ۔
حکم سے کیا مراد ہے؟ حکم سے مراد علم عقل الوہیت کتاب اور نبوت ہے ۔ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ مجھے یہ چیزیں عطا فرما کر دنیا اور آخرت میں نیک لوگوں میں شامل رکھ ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آخری وقت میں دعا مانگی تھی کہ اے اللہ اعلیٰ رفیقوں میں ملادے تین بار یہی دعا کی ۔ ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا بھی مروی ہے ۔ ( اللہم احینا مسلمین وامتنا مسلمین والحقنابالصالحین غیر خزایا ولامبدلین ) ۔ یعنی اے اللہ! ہمیں اسلام پر زندہ رکھ اور مسلمانی کی حالت میں ہی موت دے اور نیکوں میں ملادے ۔ در آنحالیکہ نہ رسوائی ہو نہ تبدیلی ۔ پھر اور دعا کرتے ہیں کہ میرے بعد بھی میرا ذکر خیر لوگوں میں جاری رہے ۔ لوگ نیک باتوں میں میری اقتدا کرتے رہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کا ذکر پچھلی نسلوں میں باقی رکھا ۔ ہر ایک آپ پر سلام بھیجتا ہے اللہ کسی نیک بندے کی نیکی اکارت نہیں کرتا ۔ ایک جہان ہے جن کی زبانیں آپ کی تعریف وتوصیف سے تر ہیں ۔ دنیا میں بھی اللہ نے انہیں اونچائی اور بھلائی دی ۔ عموما ہر مذہب وملت کے لوگوں خلیل اللہ علیہ السلام سے محبت رکھتے ہیں ۔ اور دعا کرتے ہیں کہ میرا ذکر جمیل جہاں میں باقی رہے وہاں آخرت میں بھی جنتی بنایا جاؤں ۔ اور اے اللہ میرے گمراہ باپ کو معاف فرما ۔ لیکن اپنے کافر باپ کے لئے یہ استغفار کرنا ایک وعدے پر تھا جب آپ پر اس کا دشمن اللہ ہونا کھل گیا کہ وہ کفر پر ہی مرا تو آپ کے دل سے اس کی عزت ومحبت جاتی رہی اور استغفار کرنا بھی ترک کردیا ۔ ابرہیم علیہ السلام بڑے صاف دل اور بردبار تھے ۔ ہمیں بھی جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی روش پر چلنے کا حکم ملا ہے وہیں یہ بھی فرمادیا گیا ہے کہ اس بات میں انکی پیروی نہ کرنا پھر دعا کرتے ہیں کہ مجھے قیامت کے دن کی رسوائی سے بچالینا ۔ جب کہ تمام اگلی پچھلی مخلوق زندہ ہو کر ایک میدان میں کھڑی ہوگی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے والد سے ملاقات ہوگی ۔ آپ دیکھیں گے کہ اس کا منہ ذلت سے اور گرد وغبار سے آلودہ ہو رہا ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ اس وقت آپ جناب باری تعالیٰ میں عرض کریں گے کہ پروردگار تیرا مجھ سے قول ہے کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرے گا ۔ اللہ فرمائے گا سن لے جنت تو کافر پر قطعاحرام ہے اور روایت میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھ کر فرمائیں گے کہ دیکھ میں تجھے نہیں کہہ رہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کر باپ جواب دے گا کہ اچھا اب نہ کرونگا آپ اللہ تعالیٰ کی جناب میں عرض کریں گے کہ پروردگار تو نے مجھے سے وعدہ کیا ہے کہ اس دن مجھے رسوا نہ فرمائے گا ۔ اب اس سے بڑھ کر اور رسوائی کیا ہوگی کہ میرا باپ اس طرح رحمت سے دور ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے خلیل علیہ السلام میں نے جنت کو کافروں پر حرام کردیا ہے پھر فرمائے گا ابراہیم دیکھ تیرے پیروں تلے کیا ہے؟ آپ دیکھیں گے کہ ایک بد صورت بچھو کیچڑ و پانی میں لتھڑا کھڑا ہے جس کے پاؤں پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا حقیقتا یہ ان کے والد ہونگے جو اس صورت میں کردئیے گئے اور اپنی مقررہ جگہ پہنچادئے گئے اس دن انسان اگر اپنا فدیہ مال سے ادا کرنا چاہے گو دنیابھر کے خزانے دے دے لیکن بےسود ہے ، نہ اس دن اولاد فائدہ دے گی ۔ تمام اہل زمین کو اپنے بدلے میں دینا چاہے پھر بھی لاحاصل ۔ اس دن نفع دینے والی چیز ایمان اخلاص اور شرک اور اہل شرک سے بیزاری ہے ۔ جس کا دل صالح ہو یعنی شرک وکفر کے میل کچیل سے صاف ہو ، اللہ کو سچا جانتا ہو قیامت کو یقینی مانتا ہو دوبارہ کے جی اٹھنے پر ایمان رکھتا ہو اللہ کی توحید کا قائل اور عامل ہو ۔ نفاق وغیرہ سے دل مریض نہ ہو ۔ بلکہ ایمان واخلاص اور نیک عقیدے سے دل صحیح اور تندرست ہو ۔ بدعتوں سے نفرت رکھتا ہو اور سنت سے اطمینان اور الفت رکھتا ہو ۔