Surah

Information

Surah # 26 | Verses: 227 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 47 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 197 and 224-227, from Madina
وَالَّذِىۡۤ اَطۡمَعُ اَنۡ يَّغۡفِرَ لِىۡ خَطِٓیْــَٔـتِىۡ يَوۡمَ الدِّيۡنِ ؕ‏ ﴿82﴾
اور جس سے امید بندھی ہوئی ہے کہ وہ روز جزا میں میرے گناہوں کو بخش دے گا ۔
و الذي اطمع ان يغفر لي خطيتي يوم الدين
And who I aspire that He will forgive me my sin on the Day of Recompense."
Aur jiss say umeed bandhi hui hai kay woh roz-e-jaza mein meray gunahon ko bakhsh dey ga.
اور جس سے میں یہ امید لگائے ہوئے ہوں کہ وہ حساب و کتاب کے دن میری خطا بخش دے گا ۔
اور وہ جس کی مجھے آس لگی ہے کہ میری خطائیں قیامت کے دن بخشے گا ( ف۸۵ )
اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روز جزا میں وہ میری خطا معاف فرما دے گا ۔ ” 59
اور اسی سے میں امید رکھتا ہوں کہ روزِ قیامت وہ میری خطائیں معاف فرما دے گا
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :59 یہ تیسری وجہ ہے جس کی بنا پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت درست نہیں ہو سکتی ۔ انسان کا معاملہ اپنے خدا کے ساتھ صرف اس دنیا اور اس کی زندگی تک محدود نہیں ہے کہ وجود کی سرحد میں قدم رکھنے سے شروع ہو کر موت کی آخری ہچکی پر وہ ختم ہو جائے ، بلکہ اس کے بعد اس کا انجام بھی سراسر خدا ہی کے ہاتھ میں ہے ، وہی خدا جو اس کو وجود میں لایا ہے ، آخر کار اسے اس دنیا سے واپس بلا لیتا ہے اور کوئی طاقت دنیا میں ایسی نہیں ہے جو انسان کی اس واپسی کو روک سکے ۔ آج تک کسی دوا یا طبیب یا دیوی دیوتا کی مداخلت اس ہاتھ کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے جو انسان کو یہاں سے نکال لے جاتا ہے ، حتیٰ کہ وہ بہت سے انسان بھی جنہیں معبود بنا کر انسانوں نے پوج ڈالا ہے ، خود اپنی موت کو نہیں ٹال سکے ہیں ۔ صرف خدا ہی اس امر کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کس شخص کو کب اس جہان سے واپس طلب کرنا ہے ، اور جس وقت جس کی طلبی بھی اس کے ہاں سے آ جاتی ہے اسے چارو ناچار جانا ہی پڑتا ہے ۔ پھر وہی خدا ہے جو اکیلا اس امر کا فیصلہ کرے گا کہ کب ان تمام انسانوں کو جو دنیا میں پیدا ہوئے تھے دوبارہ وجود میں لائے اور ان سے ان کی حیات دنیا کا محاسبہ کرے ۔ اس وقت بھی کسی کی یہ طاقت نہ ہو گی کہ بعث بعد الموت سے کسی کو بچا سکے یا خود بچ سکے ۔ ہر ایک کو اس کے حکم پر اٹھنا ہی ہو گا اور اس کی عدالت میں حاضر ہونا پڑے گا ۔ پھر وہی اکیلا خدا اس عدالت کا قاضی و حاکم ہو گا ۔ کوئی دوسرا اس کے اختیارات میں ذرہ برابر بھی شریک نہ ہو گا ۔ سزا دینا یا معاف کرنا بالکل اس کے اپنے ہی ہاتھ میں ہو گا ۔ کسی کی یہ طاقت نہ ہو گی کہ جسے وہ سزا دینا چاہے اس کو بخشوا لے جائے ، یا جسے وہ بخشنا چاہے اس سزا دلوا سکے ۔ دنیا میں جن کو بخشوا لینے کا مختار سمجھا جاتا ہے وہ خود اپنی بخشش کے لیے بھی اسی کے فضل و کرم کی آس لگائے بیٹھے ہوں گے ۔ ان حقائق کی موجودگی میں جو شخص خدا کے سوا کسی کی بندگی کرتا ہے وہ اپنی بد انجامی کا خود سامان کرتا ہے ۔ دنیا سے لے کر آخرت تک آدمی کی ساری قسمت تو ہو خدا کے اختیار میں ، اور اسی قسمت کے بناؤ کی خاطر آدمی رجوع کرے ان کی طرف جن کے اختیار میں کچھ نہیں ہے ! اس سے بڑھ کر شامت اعمال اور کیا ہو سکتی ہے ۔