Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَنۡ تُغۡنِىَ عَنۡهُمۡ اَمۡوَالُهُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُهُمۡ مِّنَ اللّٰهِ شَيۡـــًٔا‌ ؕ وَاُولٰٓٮِٕكَ هُمۡ وَقُوۡدُ النَّارِۙ‏ ﴿10﴾
کافروں کوان کے مال اور ان کی اولاد اللہ تعالٰی ( کے عذاب ) سے چُھڑانے میں کچھ کام نہ آئیں گی ، یہ تو جہنم کا ایندھن ہی ہیں ۔
ان الذين كفروا لن تغني عنهم اموالهم و لا اولادهم من الله شيا و اولىك هم و قود النار
Indeed, those who disbelieve - never will their wealth or their children avail them against Allah at all. And it is they who are fuel for the Fire.
Kafiron ko unn kay maal aur unn ki aulad Allah Taalaa ( kay azab ) say churaney mein kuch kaam na aayen gi yeh to jahannum ka endhan hi hain.
حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے اللہ کے مقابلے میں نہ ان کی دولت ان کے کچھ کام آئے گی ، نہ ان کی اولاد اور وہی ہیں جو آگ کا ایندھن بن کر رہیں گے ۔
بیشک وہ جو کافر ہوئے ( ف۲۱ ) ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ سے انہیں کچھ نہ بچاسکیں گے اور وہی دوزخ کے ایندھن ہیں ،
جن لوگوں نے کفر کا رویّہ اختیار کیا ہے ، 8 انہیں اللہ کے مقابلے میں نہ ان کا مال کچھ کام دے گا ، نہ اولاد ۔ وہ دوزخ کا ایندھن بن کر رہیں گے ۔
بیشک جنہوں نے کفر کیا نہ ان کے مال انہیں اﷲ ( کے عذاب ) سے کچھ بھی بچا سکیں گے اور نہ ان کی اولاد ، اور وہی لوگ دوزخ کا ایندھن ہیں
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :8 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ ، حاشیہ نمبر ١٦١ ۔ ( سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :161 ) ”کفر“ کے اصل معنی چھپانے کے ہیں ۔ اسی سے انکار کا مفہوم پیدا ہوا اور یہ لفظ ایمان کے مقابلے میں بولا جانے لگا ۔ ایمان کے معنی ہیں ماننا ، قبول کرنا ، تسلیم کرلینا ۔ اس کے برعکس کفر کے معنی ہیں نہ ماننا ، رد کر دینا ، انکار کرنا ۔ قرآن کی رو سے کفر کے رویہ کی مختلف صورتیں ہیں: ایک یہ کہ انسان سرے سے خدا ہی کو نہ مانے ، یا اس کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم نہ کرے اور اس کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک اور معبود ماننے سے انکار کر دے ، یا اسے واحد مالک اور معبود نہ مانے ۔ دوسرے یہ کہ اللہ کو تو مانے مگر اس کے احکام اور اس کی ہدایات کو واحد منبع علم و قانون تسلیم کرنے سے انکار کر دے ۔ تیسرے یہ کہ اصولاً اس بات کو بھی تسلیم کر لے کہ اسے اللہ ہی کی ہدایت پر چلنا چاہیے ، مگر اللہ اپنی ہدایات اور اپنے احکام پہنچانے کے لیے جن پیغمبروں کو واسطہ بنا تا ہے ، انہیں تسلیم نہ کرے ۔ چوتھے یہ کہ پیغمبروں کے درمیان تفریق کرے اور اپنی پسند یا اپنے تعصبات کی بنا پر ان میں سے کسی کو مانے اور کسی کو نہ مانے ۔ پانچویں یہ کہ پیغمبروں نے خدا کی طرف سے عقائد ، اخلاق اور قوانین حیات کے متعلق جو تعلیمات بیان کی ہیں ان کو ، یا ان میں سے کسی چیز کو قبول نہ کرے ۔ چھٹے یہ کہ نظریے کے طور پر تو ان سب چیزوں کو مان لے مگر عملاً احکام الہٰی کی دانستہ نافرمانی کرے اور اس نافرمانی پر اصرار کرتا رہے ، اور دنیوی زندگی میں اپنے رویّے کی بنا اطاعت پر نہیں بلکہ نافرمانی ہی پر رکھے ۔ یہ سب مختلف طرز فکر و عمل اللہ کے مقابلے میں باغیانہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک رویّے کو قرآن کفر سے تعبیر کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر قرآن میں کفر کا لفظ کفران نعمت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور شکر کے مقابلے میں بولا گیا ہے ۔ شکر کے معنی یہ ہیں کہ نعمت جس نے دی ہے انسان اس کا احسان مند ہو ، اس کے احسان کی قدر کرے ، اس کی دی ہوئی نعمت کو اسی کی رضا کے مطابق استعمال کرے ، اور اس کا دل اپنے محسن کے لیے وفاداری کے جذبے سے لبریز ہو ۔ اس کے مقابلے میں کفر یا کفران نعمت یہ ہے کہ آدمی یا تو اپنے محسن کا احسان ہی نہ مانے اور اسے اپنی قابلیت یا کسی غیر کی عنایت یا سفارش کا نتیجہ سمجھے ، یا اس کی دی ہوئی نعمت کی ناقدری کرے اور اسے ضائع کر دے ، یا اس کی نعمت کو اس کی رضا کے خلاف استعمال کرے ، یا اس کے احسانات کے باوجود اس کے ساتھ غدر اور بے وفائی کرے ۔ اس نوع کے کفر کو ہماری زبان میں بالعموم احسان فراموشی ، نمک حرامی ، غداری اور ناشکرے پن کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
جہنم کا ایندھن کون لوگ؟ فرماتا ہے کہ کافر جہنم کی بھٹیاں اور اس میں جلنے والی لکڑیاں ہیں ، ان ظالموں کو اس دن کوئی عذر معذرت ان کے کام نہ آئے گی ، ان پر لعنت ہے ، اور ان کیلئے برا گھر ہے ، ان کے مال ان کی اولادیں بھی انہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکیں گی ، اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گے ، جیسا اور جگہ فرمایا آیت ( اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭوَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا ) 4 ۔ النسآء:82 ) تو ان کے مال و اولاد پر تعجب نہ کرنا اس کی وجہ سے اللہ کا ارادہ انہیں دنیا میں بھی عذاب دینا ہے ، ان کی جانیں کفر میں ہی نکلیں گی ، اسی طرح ارشاد ہے کافروں کا شہروں میں گھومنا گھامنا تجھے فریب میں نہ ڈال دے ، یہ تو مختصر سا فائدہ ہے ، پھر ان کی جگہ جہنم ہی ہے جو بدترین بچھونا ہے ، اسی طرح یہاں بھی فرمان ہے کہ اللہ کی کتابوں کو جھٹلانے والے اس کے رسولوں کے منکر اس کی کتاب کے مخالف اس کی وحی کے نافرمان اپنی اولاد اور اپنے مال سے کوئی بھلائی کی توقع نہ رکھیں ، یہ جہنم کی لکڑیاں ہیں جن سے جہنم سلگائی اور بھڑکائی جائے گی ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ) 21 ۔ الانبیاء:98 ) تم اور تمہارے معبود جہنم کی لکڑیاں ہو ، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس عنہما کی والدہ صاحبہ حضرت ام فضل کا بیان ہے کہ مکہ شریف میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور باآواز بلند فرمانے لگے ، لوگو! کیا میں نے اللہ کی باتیں تم تک پہنچا دیں؟ لوگو! کیا میں نے تبلیغ کا حق ادا کردیا ؟ لوگو! کیا میں وحدانیت و رسالت کا مطلب تمہیں سمجھا چکا ؟ حضرت عمر فرمانے لگے ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیشک آپ نے اللہ کا دین ہمیں پہنچایا پھر جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا سنو اللہ کی قسم اسلام غالب ہوگا اور خوب پھیلے گا ، یہاں تک کہ کفر اپنی جگہ جا چھپے گا ، مسلمان اسلام اپنے قول و عمل میں لئے سمندروں کو چیرتے پھاڑتے نکل جائیں گے اور اسلام کی اشاعت کریں گے ، یاد رکھو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ لوگ قرآن کو سیکھیں گے پڑھیں گے ( پھر تکبر برائی اور اندھے پن کے طور پر ) کہنے لگیں گے ہم قاری ہیں ، عالم ہیں ، کون ہے جو ہم سے بڑھ چڑھ کر ہو؟ کیا ان لوگوں میں کچھ بھی بھلائی ہوگی؟ لوگوں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہیں ، آپ نے فرمایا وہ تم ہی مسلمانوں میں سے ہوں گے لیکن خیال رہے کہ وہ جہنم کا ایندھن ہیں ، ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث ہے ، اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر نے جواب میں کہا ہاں ہاں اللہ کی قسم آپ نے بڑی حرص اور چاہت سے تبلیغ کی ، آپ نے پوری جدوجہد اور دوڑ دھوپ کی ، آپ نے ہماری زبردست خیرخواہی کی اور بہتری چاہی ۔ پھر فرماتا ہے جیسا حال فرعونوں کا تھا اور جیسے کرتوت ان کے تھے ، لفظ داب ہمزہ کے جزم سے بھی آتا ہے اور ہمزہ کے زبر سے بھی آتا ہے ، جیسا نہر اور نہر ، اس کے معنی شان عدالت حال طریقے کے آتے ہیں ، امرا القیس کے شعروں میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے ، مطلب اس آیت شریف کا یہ ہے کہ کفار کا مال و اولاد اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئے گا جیسے فرعونوں اور ان سے اگلے کفار کو کچھ کام نہ آیا ، اللہ کی پکڑ سخت ہے اس کا عذاب دردناک ہے ، کوئی کسی طاقت سے بھی اس سے بچ نہیں سکتا نہ اسے روک سکتا ہے ، وہ اللہ جو چاہے کرتا ہے ، ہر چیز اس کے سامنے حقیر ہے ، نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ رَب ۔