Surah

Information

Surah # 26 | Verses: 227 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 47 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 197 and 224-227, from Madina
قَالُوۡا سَوَآءٌ عَلَيۡنَاۤ اَوَعَظۡتَ اَمۡ لَمۡ تَكُنۡ مِّنَ الۡوٰعِظِيۡنَۙ‏ ﴿136﴾
انہوں نے کہا کہ آپ وعظ کہیں یا وعظ کہنے والوں میں نہ ہوں ہم پر یکساں ہیں ۔
قالوا سواء علينا او عظت ام لم تكن من الوعظين
They said, "It is all the same to us whether you advise or are not of the advisors.
Unhon ney kaha kay aap waaz kehn ya waaz kehney walon mein na hon hum per yaksan hai.
وہ کہنے لگے : چاہے تم نصیحت کرو ، یا نہ کرو ، ہمارے لیے سب برابر ہے ۔
بولے ہمیں برابر ہے چاہے تم نصیحت کرو یا ناصحوں میں نہ ہو ( ف۱۲۵ )
” انہوں نے جواب دیا ” تو نصیحت کر یا نہ کر ، ہمارے لیے سب یکساں ہے ۔
وہ بولے: ہمارے حق میں برابر ہے خواہ تم نصیحت کرو یا نصیحت کرنے والوں میں نہ بنو ( ہم نہیں مانیں گے )
موثر بیانات بھی بے اثر حضرت ہود علیہ السلام کے موثر بیانات نے اور آپ کے رغبت اور ڈر بھرے خطبوں نے قوم پر کوئی اثر نہیں کیا اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ آپ ہمیں وعظ سنائیں یا نہ سنائیں نصیحت کریں یا نہ کریں ہم تو اپنی روش کو نہیں چھوڑ سکتے ۔ ہم آپ کی بات مان کر اپنے معبودوں سے دست بردار ہوجائیں یہ یقینا محال ہے ہمارے ایمان سے آپ مایوس ہوجائیں ہم آپ کی نہیں مانیں گے ۔ فی الوقع کافروں کا یہی حال ہے کہ انہیں سمجھانا بےسود رہتا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی آخرالزماں سے بھی یہی فرمایا کہا ان ازلی کفار پر آپ کی نصیحت مطلق اثر نہیں کرے گی یہ نصیحت کرنے اور ہوشیار کر دینے کے بعد بھی ویسے ہی رہیں گے جیسے پہلے تھے ۔ یہ تو قدرتی طور پر ایمان سے محروم کردیے گئے ہیں ۔ جن پر تیرے رب کی بات صادق آنے والی ہے انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے والا ۔ خُلُقُ الاولین کی دوسری قرأت خَلقُ الاولین بھی ہے یعنی جو باتیں تو ہمیں کہتا ہے یہ تو اگلوں کی کہی ہوئی ہیں جیسے قریشیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں جو صبح شام تمہارے سامنے پڑھی جاتی ہیں ۔ یہ ایک بہتان ہے جسے تونے گھڑ لیا ہے اور کچھ لوگ اپنے طرفدار کرلئے ہیں ۔ مشہور قراء کی بنا پر معنی یہی ہوئے کہ جس پر ہم ہیں وہی ہمارے پرانے باپ دادوں کا مذہب ہے ہم تو انہیں کی راہ چلیں گے اور اسی روش پر رہیں گے جیئں گے پھر مرجائیں گے جیسے وہ مرگئے ۔ یہ محض لاف ہے کہ پھر ہم اللہ کے ہاں زندہ کئے جائیں گے ۔ یہ بھی غلط ہے کہ ہمیں عذاب کیا جائے گا آخر شان کی تکذیب اور مخالفت کی وجہ سے انہیں ہلاک کر دیا گیا ۔ سخت تیز وتند آندھی ان پر بھیجی گئی اور یہ برباد کر دئیے گئے یہ عاد اولی تھے جنہیں آیت ( اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ Ċ۝۽ ) 89- الفجر:7 ) بھی کہا گیا ۔ یہ ارم سام بن نوح علیہ السلام کی نسل میں سے تھے ۔ عمد میں یہ رہتے تھے ارم حضرت نوح علیہ السالم کے پوتے کا نام ہے نہ کہ کسی شہر کا ۔ گو بعض لوگوں سے یہ بھی مروی ہے لیکن اس کے قائل بنی اسرائیل ہیں ۔ ان سے سن سنا کر اوروں نے بھی یہ کہہ دیا حقیقت میں اسکی کوئی مضبوط دلیل نہیں ۔ اسی لئے قرآن نے ارم کا ذکر کرتے ہی فرمایا کہ آیت ( لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ Ď۝۽ ) 89- الفجر:8 ) ۔ ان جیسا اور کوئی شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا ۔ اگر اس سے مراد شہر ارم ہوتا تو یوں فرمایا جاتا کہ اس جیسا اور کوئی شہر بنایا نہیں گیا ۔ قرآن کریم کی اور آیت میں ہے آیت ( فَاَمَّا عَادٌ فَاسْـتَكْبَرُوْا فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً 15؀ ) 41- فصلت:15 ) عادیوں نے زمین میں تکبر کیا اور نعرہ لگایا کہ ہم سے بڑھ کر قوت والا کون ہے؟ کیا وہ اسے بھی بھول گئے ان کا پیدا کرنے والا ان سے زیادہ قوی ہے دراصل انہیں ہماری آیتوں سے انکار تھا یہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ان پر صرف بیل کے نتھنے کے برابر ہوا چھوڑی گئی تھی ۔ جس نے ان کو ان کے شہروں کا ان کے مکانات کا نام ونشان مٹادیا جہاں سے گزر گئی صفایا کردیا شائیں شائیں کرتی تمام چیزوں کا ستیاناس کرتی چلی تھی ۔ تمام قوم کے سر الگ ہوگئے اور دھڑ الگ ہوگئے ۔ عذاب الٰہی کو ہوا کی صورت آتا دیکھ کر قلعوں میں محلات میں محفوظ مکانات میں گھس گئے تھے ۔ زمین میں گڑھے کھود کھود کر آدھے آدھے جسم ان میں ڈال کر محفوظ ہوئے تھے لیکن بھلا عذاب اللہ کو کوئی چیز روک سکتی ہے؟ وہ ایک منٹ کے لئے بھی کسی کو مہلت اور دم لینے دیتا ہے؟ سب چٹ پٹ کر دئیے گئے اور اس واقعہ کو بعد میں آنے والوں کے لئے نشان عبرت بنادیا گیا ۔ ان میں سے پھر بھی اکثر لوگ بے ایمان ہی رہے اللہ کا غلبہ اور رحم دونوں مسلم تھے ۔