Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ وَالۡمَلٰٓٮِٕكَةُ وَاُولُوا الۡعِلۡمِ قَآٮِٕمًا ۢ بِالۡقِسۡطِ‌ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُؕ‏ ﴿18﴾
اللہ تعالیٰ ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے ، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔
شهد الله انه لا اله الا هو و الملىكة و اولوا العلم قاىما بالقسط لا اله الا هو العزيز الحكيم
Allah witnesses that there is no deity except Him, and [so do] the angels and those of knowledge - [that He is] maintaining [creation] in justice. There is no deity except Him, the Exalted in Might, the Wise.
Allah Taalaa farishtay aur ehal-e-ilm iss baat ki gawahi detay hain kay Allah kay siwa koi mabood nahi aur woh adal ko qaeem rakhney wala hai uss ghalib aur hikmata walay kay siwa koi ibadat kay laeeq nahi.
اللہ نے خود اس بات کی گواہی دی ہے ، اور فرشتوں اور اہل علم نے بھی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جس نے انصاف کے ساتھ ( کائنات ) کا انتظام سنبھالا ہوا ہے ۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں جس کا اقتدار بھی کامل ہے حکمت بھی کامل ۔
اور اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ( ف۳۸ ) اور فرشتوں نے اور عالموں نے ( ف۳۹ ) انصاف سے قائم ہو کر اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں عزت والا حکمت والا ،
اللہ نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے 14 اور ( یہی شہادت ) فرشتوں اور سب اہل علم نے بھی دی ہے ۔ 15 وہ انصاف پر قائم ہے ۔ اس زبر دست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی خدا نہیں ہے ۔
اﷲ نے اس بات پر گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی ( اور ساتھ یہ بھی ) کہ وہ ہر تدبیر عدل کے ساتھ فرمانے والا ہے ، اس کے سوا کوئی لائقِ پرستش نہیں وہی غالب حکمت والا ہے
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :14 یعنی اللہ جو کائنات کی تمام حقیقتوں کا براہ راست علم رکھتا ہے ، جو تمام موجودات کو بے حجاب دیکھ رہا ہے ، جس کی نگاہ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ، یہ اس کی شہادت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس سے بڑھ کر معتبر عینی شہادت اور کس کی ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ کہ پورے عالم وجود میں اس کی اپنی ذات کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے ، جو خدائی کی صفات سے متصف ہو ، خدائی کے اقتدار کی مالک ہو ، اور خدائی کے حقوق کی مستحق ہو ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :15 اللہ کے بعد سب سے زیادہ معتبر شہادت فرشتوں کی ہے ، کیونکہ وہ سلطنت کائنات کے انتظامی اہل کار ہیں اور وہ براہ راست اپنے ذاتی علم کی بنا پر شہادت دے رہے ہیں کہ اس سلطنت میں اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا اور اس کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں ہے ، جس کی طرف زمین وآسمان کے انتظامی معاملات میں وہ رجوع کرتے ہوں ۔ اس کے بعد مخلوقات میں سے جن لوگوں کو بھی حقائق کا تھوڑا یا بہت علم حاصل ہوا ہے ، ان سب کی ابتدا ئے آفرینش سے آج تک یہ متفقہ شہادت رہی ہے کہ ایک ہی خدا اس پوری کائنات کا مالک و مدبر ہے ۔
اللہ وحدہ لاشریک اپنی وحدت کا خود شاہد اللہ تعالیٰ خود شہادت دیتا ہے بس اس کی شہادت کافی ہے وہ سب سے زیادہ سچا گواہ ہے ، سب سے زیادہ سچی بات اسی کی ہے ، وہ فرماتا ہے کہ تمام مخلوق اس کی غلام ہے اور اسی کی پیدا کی ہوئی ہے ۔ اور اسی کی طرف محتاج ہے ، وہ سب سے بےنیاز ہے ، الوہیت میں اللہ ہونے میں وہ یکتا اور لاشریک ہے ، اس کے سوا کوئی پوجے جانے کے لائق نہیں ، جیسے فرمان ہے آیت ( لٰكِنِ اللّٰهُ يَشْهَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَيْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ ) 4 ۔ النسآء:166 ) یعنی لیکن اللہ تعالیٰ بذریعہ اس کتاب کے جو وہ تیری طرف اپنے علم سے اتار رہا ہے ، گواہی دے رہا ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی شہادت کافی ہے ، پھر اپنی شہادت کے ساتھ فرشتوں کی شہادت پر علماء کی گواہی کو ملا رہا ہے ۔ یہاں سے علماء کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے بلکہ خصوصی قائما کا نصب حال ہونے کی وجہ سے ہے وہ اللہ ہر وقت اور حال میں ایسا ہی ہے ، پھر تاکیداً دوبارہ ارشاد ہوتا ہے کہ معبود حقیقی صرف وہی ہے ، وہ غالب ہے ، عظمت اور کبریائی والی اس کی بارگاہ ہے ، وہ اپنے اقوال افعال اور شریعت قدرت و تقدیر میں حکمتوں والا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں اس آیت کی تلاوت کی اور الحکیم تک پڑھ کر فرمایا وانا علی ذالک من الشاھدین یا رب ، ابن ابی حاتم میں ہے آپ نے یوں فرمایا وانا اشھدای رب طبرانی میں ہے حضرت غالب قطان فرماتے ہیں میں کوفے میں تجارتی غرض سے گیا اور حضرت اعمش کے قریب ٹھہرا ، رات کو حضرت اعمش تہجد کیلئے کھڑے ہوئے پڑھتے پڑھتے جب اس آیت تک پہنچے اور آیت ( اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ) 3 ۔ آل عمران:19 ) پڑھا تو فرمایا وانا اشھد بما شھد اللہ بہ واستودع اللہ ھذہ الشھادۃ وھی لی عند اللہ ودیعتہ یعنی میں بھی شہادت دیتا ہوں اس کی جس کی شہادت اللہ نے دی اور میں اس شہادت کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں ، یہ میری امانت اللہ کے پاس ہے ، پھر کئی دفعہ آیت ( اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ) 3 ۔ آل عمران:19 ) پڑھا ، میں نے اپنے دِل میں خیال کیا کہ شاید اس بارے میں کوئی حدیث سنی ہوگی ، صبح ہی صبح میں حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا کہ ابو محمد کیا بات تھی جو آپ اس آیت کو بار بار پڑھتے رہے؟ کہا کیا اس کی فضیلت تمہیں معلوم نہیں؟ میں نے کہا حضرت میں تو مہینہ بھر سے آپ کی خدمت میں ہوں لیکن آپ نے حدیث بیان ہی نہیں کی ، کہنے لگے اللہ کی قسم میں تو سال بھر تک بیان نہ کروں گا ، اب میں اس حدیث کے سننے کی خاطر سال بھر تک ٹھہرا رہا اور ان کے دروازے پر پڑا رہا جب سال کامل گزر چکا تو میں نے کہا اے ابو محمد سال گزر چکا ہے ، سُن مجھ سے ابو وائل نے حدیث بیان کی ، اس نے عبداللہ سے سنا ، وہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے پڑھنے والے کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور اللہ عزوجل فرمائے گا میرے اس بندے نے میرا عہد لیا ہے اور میں عہد کو پورا کرنے میں سب سے افضل و اعلیٰ ہوں ، میرے اس بندے کو جنت میں لے جاؤ ۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے وہ صرف اسلام ہی کو قبول فرماتا ہے ، اسلام ہر زمانے کے پیغمبر کی وحی کی تابعداری کا نام ہے ، اور سب سے آخر اور سب رسولوں کو ختم کرنے والے ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، آپ کی نبوت کے بعد نبوت کے سب راستے بند ہوگئے اب جو شخص آپ کی شریعت کے سوا کسی چیز پر عمل کرے اللہ کے نزدیک وہ صاحب ایمان نہیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ) 3 ۔ آل عمران:85 ) جو شخص اسلام کے سوا اور دین کی تلاش کرے وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا ، اسی طرح اس آیت میں دین کا انحصار اسلام میں کر دیا ہے ۔ حضرت ابن عباس کی قرأت میں ( آیت شھد اللہ انہ ) ہے اور ان الاسلام ہے ، تو معنی یہ ہوں گے ، خود اللہ کی گواہی ہے اور اس کے فرشتوں اور ذی علم انسانوں کے نزدیک مقبول ہونے والا دین صرف اسلام ہی ہے ، جمہور کی قرأت میں ان زیر کے ساتھ ہے اور معنی کے لحاظ سے دونوں ہی ٹھیک ہیں ، لیکن جمہور کا قول زیادہ ظاہر ہے واللہ اعلم ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ پہلی کتاب والوں نے اپنے پاک اللہ کے پیغمبروں کے آنے اور اللہ کی کتابیں نازل ہونے کے بعد بھی اختلاف کیا ، جس کی وجہ سے صرف ان کا آپس کا بغض و عناد تھا کہ میں اس کیخلاف ہی چلوں چاہے وہ حق پر ہی کیوں نہ ہو ، پھر ارشاد ہے کہ جب اللہ کی آیتیں اتر چکی ، اب جو ان کا انکار کرے انہیں نہ مانے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے اس کی تکذیب کا بہت جلد حساب لے گا اور کتاب اللہ کی مخالفت کی وجہ سے اسے سخت عذاب دے گا اور اسے اس کی اس شرارت کا لطف چکھائے گا ۔ پھر فرمایا اگر یہ لوگ تجھ سے توحید باری تعالیٰ کے بارے میں جھگڑیں تو کہہ دو کہ میں تو خالص اللہ ہی کی عبادت کروں گا جس کا نہ کوئی شریک ہے نہ اس جیسا کوئی ہے ، نہ اس کی اولاد ہے نہ بیوی اور جو میرے امتی ہیں میرے دین پر ہیں ۔ ان سب کا قول بھی یہی ہے ، جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ ۷ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ ۭ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ) 12 ۔ یوسف:108 ) یعنی میری راہ یہی ہے میں خوب سوچ سمجھ کر دیکھ بھال کر تمہیں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں ، میں بھی اور میرے تابعدار بھی یہی دعوے دے رہے ہیں ، پھر حکم دیتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہود و نصاریٰ جن کے ہاتھوں میں اللہ کی کتاب ہے اور مشرکین سے جو اَن پڑھ ہیں کہہ دو کہ تم سب کی ہدایت اسلام میں ہی ہے اور اگر یہ نہ مانیں تو کوئی بات نہیں ، آپ اپنا فرض تبلیغ ادا کر چکے ، اللہ خود ان سے سمجھ لے گا ، ان سب کو لوٹ کر اسی کے پاس جانا ہے وہ جسے سیدھا راستہ دکھائے جسے چاہے گمراہ کر دے ، اپنی حکمت کو وہی خوب جانتا ہے اس کی حجت تو پوری ہو کر ہی رہتی ہے ، اس کی اپنے بندوں پر نظر ہے اسے خوب معلوم ہے کہ ہدایت کا مستحق کون ہے اور کون ضلالت کا مستحق ہے؟ اس سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا ۔ دوسری آیتوں میں بھی صاف صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق کی طرف اللہ کے نبی بن کر آئے ہیں ، اور خود آپ کے دین کے احکام بھی اس پر دلالت کرتے ہیں اور کتاب و سنت میں بھی بہت سی آیتیں اور حدیثیں اسی مفہوم کی ہیں ، قرآن پاک میں ایک جگہ ہے آیت ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) 7 ۔ الاعراف:158 ) لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔ اور آیت میں ہے آیت ( تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا ) 25 ۔ الفرقان:1 ) بابرکت ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندوں پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام دنیا والوں کیلئے تنبیہ کرنے والا بن جائے ۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں کئی کئی واقعات سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب و عجم کے تمام بادشاہوں کو اور دوسرے اطراف کے لوگوں کو خطوط بھجوائے جن میں انہیں اللہ کی طرف آنے کی دعوت دی خواہ وہ عرب ہوں عجم ہوں اہل کتاب ہوں مذہب والے ہوں اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کے فرض کو تمام و کمال تک پہنچا دیا ۔ مسند عبدالرزاق میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اس امت میں سے جس کے کان میں میری نسبت کی آواز پہنچے اور وہ میری لائی ہوئی چیز پر ایمان نہ لائے خواہ یہودی ہو خواہ نصرانی ہو مگر مجھ پر ایمان لائے بغیر مر جائے گا تو قطعاً جہنمی ہوگا ، مسلم شریف میں بھی یہ حدیث مروی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ میں ہر ایک سرخ و سیاہ کی طرف اللہ کا نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ، ایک اور حدیث میں ہے ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا اور میں تمام انسانوں کیلئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ، مسند احمد میں حضرت انس سے مروی ہے کہ ایک یہودی لڑکا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے وضو کا پانی رکھا کرتا تھا اور جوتیاں لا کر رکھ دیتا تھا ، بیمار پڑا گیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بیمار پرسی کیلئے تشریف لائے ، اس وقت اس کا باپ اس کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے فلاں لا الہ الا اللہ کہہ ، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور باپ کو خاموش دیکھ کر خود بھی چپکا ہو گیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی فرمایا اس نے پھر اپنے باپ کی طرف دیکھا باپ نے کہا ابو القاسم کی مان لے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پس اس بچے نے کہا اشھد ان لا الہ الا اللہ وانک رسول اللہ وہاں سے یہ فرماتے ہوئے اٹھے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے میری وجہ سے اسے جہنم سے بچا لیا ، یہی حدیث صحیح بخاری میں حضرت امام بخاری بھی لائے ہیں ، ان کے سوا اور بھی بہت سی صحیح حدیثیں بھی اور قرآن کریم کی آیتیں ہیں ۔