Surah

Information

Surah # 26 | Verses: 227 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 47 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 197 and 224-227, from Madina
قَالُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مِنَ الۡمُسَحَّرِيۡنَۙ‏ ﴿185﴾
انہوں نے کہا تو تُو ان میں سے ہے جن پر جادو کر دیا جاتا ہے ۔
قالوا انما انت من المسحرين
They said, "You are only of those affected by magic.
Unhon ney kaha tu to unn mein say hai jin per jadoo ker diya jata hai.
کہنے لگے : تم پر تو کسی نے بڑا بھاری جادو کردیا ہے ۔
بولے تم پر جادو ہوا ہے ،
” انہوں نے کہا ” تو محض ایک سحر زدہ آدمی ہے ،
وہ کہنے لگے: ( اے شعیب! ) تم تو محض جادو زدہ لوگوں میں سے ہو
مشرکین کی وہی حماقتیں ثمودیوں نے جو جواب اپنے نبی کو دیا تھا وہی جواب ان لوگوں نے بھی اپنے رسولوں کو دیا کہ تجھ پر تو کسی نے جادو کر دیا ہے تیری عقل ٹھکانے نہیں رہی ۔ تو ہم جیسا ہی انسان ہے اور ہمیں تو یقین ہے کہ تو جھوٹا آدمی ہے ۔ اللہ نے تجھے نہیں بھیجا ۔ اچھا تو اگر اپنے دعوے میں سچا ہے تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرادے ۔ آسمانی عذاب ہم پر لے آ جیسے قریشیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ ہم تجھ پر ایمان لانے کے نہیں جب تک کہ تو عرب کے اس ریتلی زمین میں دریا نہ بہادے یہاں تک کہا کہ یا تو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گردے جیسے کہ تیرا خیال ہے یا تو اللہ تعالیٰ کو یا فرشتوں کو کھلم کھلا لے آ ۔ اور آیت میں ہے کہ انہوں نے کہا اے اللہ اگر یہ تیرے پاس ہے اور حق ہے تو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسادے اسی طرح ان جاہل کافروں نے کہا کہ تو ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرادے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اللہ کو تمہارے اعمال بخوبی معلوم ہیں جس لائق تم ہو وہ خود کردے گا ۔ اگر تم اس کے نزدیک آسمانی عذاب کے قابل ہو تو بلا تاخیر تم پر آسمانی عذاب آجائے گا اللہ ظالم نہیں کہ بیگناہوں کو سزادے ۔ بالآخر جس قسم کا عذاب یہ مانگ رہے تھے اسی قسم کا عذاب ان پر آیا ۔ انہیں سخت گرمی محسوس ہوئی سات دن تک گویا زمین ابلتی رہی ۔ کسی جگہ کسی سایہ میں ٹھنڈک یا راحت میسر نہ ہوئی ۔ تڑپ اٹھے بےقرار ہوگئے سات دن کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ایک سیاہ بادل ان کی طرف آرہا ہے وہ آکر ان کے سروں پر چھا گیا یہ سب گرمی اور حرارت سے زچ ہوگئے تھے اسکے نیچے جابیٹھے ۔ جب سارے کے سارے اس کے سائے میں پہنچ گئے وہیں بادل میں سے آگ برسنے لگی ساتھ ہی زمین زور زور سے جھٹکے لینے لگی اور اس زور کی ایک آواز آئی جس سے ان کے دل پھٹ گئے جان نکل گئی اور سارے بہ یک آن تباہ ویران ہوگئے ۔ اس دن کے سائبان والے سخت عذاب نے ان میں سے ایک کو بھی باقی نہ چھوڑا ۔ سورۃ اعراف میں تو فرمایا گیا ہے کہ ایک زلزلے کے ساتھ ہی یہ سب ہلاک ہوگئے ۔ سورۃ ہود میں بیان ہوا ہے کہ ان کی تباہی کا باعث ایک خطرناک منظر دل شکن چیخ تھی اور یہاں بیان ہوا کہ انہیں سائبان کے دن عذاب نے قابو کرلیا تو تینوں مقامات پر تینوں کا ایک ایک کرکے ذکر اس مقام کی عبارت کی مناسبت کی وجہ سے ہوا ہے ۔ سورۃ اعراف میں ان کی اس خباثت کا ذکر ہے کہ انہوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کو دھمکایا تھا کہ اگر تم ہمارے دین میں نہ آئیں تو ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو شہر بدر کردیں گے ۔ چونکہ وہاں نبی کے دل کو ہلانے کا ذکر تھا اس لئے عذاب بھی ان کے جسموں کو مع دلوں کو ہلادینے والے یعنی زلزلے اور جھٹکے کا ذکر ہوا ۔ سورۃ ہود میں ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے نبی کو بطور مذاق کے کہا تھا کہ آپ تو بڑے بردبار اور بھلے آدمی ہیں ۔ مطلب یہ تھا کہ بڑے بکی بکواسی اور برے آدمی ہیں تو وہاں عذاب میں چیخ اور چنگھاڑ کا بیان ہوا ۔ یہاں چونکہ ان کی آرزو آسمان کے ٹکڑے کے گرنے کی تھی تو عذاب کا ذکر بھی سائبان نما ابر کے ٹکڑے سے ہوا ۔ فسبحانہ ما اعظم شانہ ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ سات دن تک وہ گرمی پڑی کہ الامان والحفیظ کہیں ٹھنڈک کا نام نہیں تھا تلملا اٹھے اس کے بعد ایک ابر اٹھا اور امڈھا ۔ اس کے سائے میں ایک شخص پہنچا اور وہاں راحت اور ٹھنڈک پاکر اس نے دوسروں کو بلایا جب سب جمع ہوگئے تو ابر پھٹا اور اس میں سے آگ برسی ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ابر جو بطور سائبان کے تھا ان کے جمع ہوتے ہی ہٹ گیا اور سورج سے ان پر آگ برسی جس نے ان سب کا بھرتا بنادیا ۔ محمد بن کعب قرظی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اہل مدین پر تینوں عذاب آئے شہروں میں زلزلہ آیا جس سے خائف ہو کر حدود شہر سے باہر آگئے ۔ باہر جمع ہوتے ہی گھبراہٹ پریشانی اور بےکلی شروع ہوگئی تو وہاں سے بھگدڑ مچی لیکن شہر میں جانے سے ڈرے وہیں دیکھا کہ ایک ابر کا ٹکڑا ایک جگہ ہے ایک اس کے نیچے گیا اور اس کی ٹھنڈک محسوس کرکے سب کو آواز دی کہ یہاں آجاؤ یہاں جیسی ٹھنڈک اور تسکین تو کبھی دیکھی ہی نہیں یہ سنتے سب اس کے نیچے جمع ہوگئے کہ اچانک ایک چیخ کی آواز آئی جس سے کلیجے پھٹ گئے سب کے سب مرگئے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ سخت گرج کڑک اور گرمی شروع ہوئی جس سے سانس گھٹنے لگے اور بےچینی حد کو پہنچ گئی ۔ گھبراکر شہر چھوڑ کر میدان میں جمع ہوگئے ۔ یہاں بادل آیا جس کے نیچے ٹھنڈک اور راحت حاصل کرنے کے لئے سب جمع ہوئے ۔ وہیں آگ برسی جل بھن گئے ۔ یہ تھا سائبان والے بڑے بھاری دن کا عذاب جس نے ان کا نام ونشان مٹادیا ۔ یقینا یہ واقعہ سراسر عبرت اور قدرت الٰہی کی ایک زبردست نشانی ہے ۔ ان میں اکثر بے ایمان تھے اللہ تعالیٰ اپنے بد بندوں سے انتقام لینے میں غالب ہے ۔ کوئی اسے مغلوب نہیں کرسکتا وہ اپنے نیک بندوں پر مہربان ہے انہیں بچالیا کرتا ہے ۔