سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :120
مراد ہیں جبریل علیہ السلام ، جیسا کہ دوسری جگہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے : قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہ نَزَّلَہ عَلیٰ قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللہِ ۔ ( البقرہ ۔ آیت 97 ) ۔ کہہ دے کہ جو کوئی دشمن ہے جبریل علیہ السلام کا تو اسے معلوم ہو کہ اسی نے یہ قرآن اللہ کے حکم سے تیرے دل پر نازل کیا ہے ۔ یہاں ان کا نام لینے کے بجائے ان کے لیے روح امین ( امانت دار روح ) کا لقب استعمال کرنے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ رب العالمین کی طرف سے اس تنزیل کو لے کر کوئی مادی طاقت نہیں آئی ہے جس کے اندر تغیر و تبدل کا امکان ہو ، بلکہ وہ ایک خالص روح ہے بلا شائبہ مادیت ، اور وہ پوری طرح امین ہے ، خدا کا پیغام جیسا اس کے سپرد کیا جاتا ہے ویسا ہی بلا کم و کاست پہنچا دیتی ہے ، اپنی طرف سے کچھ بڑھانا یا گھٹا دینا بطور خود کچھ تصنیف کر لینا اس کے لیے ممکن نہیں ہے ۔