Surah

Information

Surah # 26 | Verses: 227 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 47 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 197 and 224-227, from Madina
وَاِنَّهٗ لَفِىۡ زُبُرِ الۡاَوَّلِيۡنَ‏ ﴿196﴾
اگلے نبیوں کی کتابوں میں بھی اس قرآن کا تذکرہ ہے ۔
و انه لفي زبر الاولين
And indeed, it is [mentioned] in the scriptures of former peoples.
Aglay nabiyon ki kitabon mein bhi iss quran ka tazkarah hai.
اور اس ( قرآن ) کا تذکرہ پچھلی ( آسمانی ) کتابوں میں بھی موجود ہے ۔ ( ٤٣ )
اور بیشک اس کا چرچا اگلی کتابوں میں ہے ( ف۱٦٤ )
اور اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی یہ موجود ہے ۔ 122
اور بیشک یہ پہلی امتوں کے صحیفوں میں ( بھی مذکور ) ہے
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :122 یعنی یہ ذکر اور یہی تنزیل اور یہی الہٰی تعلیم سابق کتب آسمانی میں بھی موجود ہے ۔ یہی خدائے واحد کی بندگی کا بلاوا ، یہی آخرت کی زندگی کا عقیدہ ، یہی انبیاء کی پیروی کا طریقہ ان سب میں بھی پیش کیا گیا ہے ، سب کتابیں جو خدا کی طرف سے آئی ہیں شرک کی مذمت ہی کرتی ہیں ، مادہ پرستانہ نظریہ حیات کو چھوڑ کر اسی بر حق نظریہ حیات کی طرف دعوت دیتی ہیں جس کی بنیاد خدا کے حضور انسان کی جواب دہی کے تصور پر ہے ، اور انسان سے یہی مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ اپنی خود مختاری سے دست بردار ہو کر ان الہٰی احکام کی پیروی اختیار کرے جو انبیاء علیہم السلام لائے ہیں ۔ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نرالی نہیں جو دنیا میں پہلی مرتبہ قرآن ہی پیش کر رہا ہو اور کوئی شخص یہ کہہ سکے تم وہ بات کر رہے ہو جو اگلوں پچھلوں میں سے کسی نے کبھی نہیں کی ۔ یہ آیت منجملہ ان دلائل کے ہے جو امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی اس قدیم رائے کے حق میں پیش کیے جاتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نماز میں قرآن کا ترجمہ پڑھ لے تو نماز ہو جاتی ہے ، خواہ وہ شخص عربی میں قرآن پڑھنے کی قدرت رکھتا ہو نہ رکھتا ہو ۔ بنائے استدلال علامہ ابو بکر جصاص کے الفاظ میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرما رہا ہے کہ قرآن پچھلی کتابوں میں بھی تھا ، اور ظاہر ہے کہ ان کتابوں میں وہ عربی الفاظ کے ساتھ نہ تھا ۔ لہٰذا کسی دوسری زبان میں اس کے مضامین کو نقل کر دینا اسے قرآن ہونے سے خارج نہیں کر دیتا ( احکام القرآن ، جلد سوم ، صفحہ 429 ) ۔ لیکن اس استدلال کی کمزوری بالکل ظاہر ہے ۔ قرآن مجید ہو یا کوئی دوسری آسمانی کتاب ، کسی کے نزول کی کیفیت بھی یہ نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے صرف معانی نبی کے دل پر القا کر دیے ہوں اور نبی نے پھر انہیں اپنے الفاظ میں بیان کیا ہو ۔ بلکہ ہر کتاب جس زبان میں بھی آئی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے معنی اور لفظ دونوں کے ساتھ آئی ہے ۔ اس لیے قرآن کی تعلیم جن پچھلی کتابوں میں تھی ، انسانی الفاظ میں نہیں ، خدائی الفاظ ہی میں تھی ، اور ان میں سے کسی کے ترجمہ کو بھی کتاب اللہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اصل کا قائم مقام ٹھہرایا جا سکے ۔ رہا قرآن تو اس کے متعلق بار بار بصراحت فرمایا گیا ہے کہ وہ لفظاً لفظاً عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے : اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْاٰناً عَرَبِیًّا ، ( یوسف ۔ آیت 2 ) وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ حُکْماً عَرَبِیًّا ، ( الرعد ۔ آیت 37 ) ۔ قُرْاٰناً عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ ، ( الزمر ۔ آیت 28 ) ۔ اور خود اسی آیت زیر بحث سے پہلے متصلاً فرمایا جا چکا ہے کہ روح الامین اسے زبان عربی میں لے کر اترا ہے ۔ اب اس کے متعلق یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا کوئی ترجمہ جو کسی انسان نے دوسری زبان میں کیا ہو وہ بھی قرآن ہی ہو گا اور اس کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے الفاظ کے قائم مقام ہوں گے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ استدلال کی اس کمزوری کو بعد میں خود امام ممدوح نے ہی محسوس فرما لیا تھا ، چنانچہ معتبر روایات سے یہ بات نقل ہوئی ہے کہ انہوں نے اس مسئلے میں اپنی رائے سے رجوع کر کے امام ابو یوسف اور امام محمد کی رائے قبول کر لی تھی ، یعنی یہ کہ جو شخص عربی زبان میں قرأت پر قادر نہ ہو وہ اس وقت تک نماز میں قرآن کا ترجمہ پڑھ سکتا ہے جب تک اس کی زبان عربی الفاظ کے تلفظ کے قابل نہ ہوجائے ، لیکن جو شخص عربی میں قرآن پڑھ سکتا ہو وہ اگر قرآن کا ترجمہ پڑھے گا تو اس کی نماز نہ ہو گی ۔ حقیقت یہ ہے کہ صاحبین نے یہ رعایت دراصل ان عجمی نو مسلموں کے لیے تجویز کی تھی جو اسلام قبول کرتے ہی فوراً عربی زبان میں نماز ادا کرنے کے قابل نہ ہو سکتے تھے ۔ اور اس میں بنائے استدلال یہ نہ تھی کہ قرآن کا ترجمہ بھی قرآن ہے ، بلکہ ان کا استدلال یہ تھا کہ جس طرح اشارے سے رکوع و سجود کرنا اس شخص کے لیے جائز ہے جو رکوع اور سجدہ کرنے سے عاجز ہو ، اسی طرح غیر عربی میں نماز پڑھنا اس شخص کے لیے جائز ہے جو عربی تلفظ پر قادر نہ ہو ۔ اور علیٰ ہٰذا القیاس جس طرح عجز رفع ہو جانے کے بعد اشارے سے رکوع و سجود کرنے والے کی نماز نہ ہو گی اسی طرح قرآن کے تلفظ پر قادر ہو جانے کے بعد ترجمہ پڑھنے والے کی نماز بھی نہ ہو گی ۔ ( اس مسئلے پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو مبسوط سَرَخْسی ، جلد اول ، صفحہ 37 ۔ فتح القدیر و شرح عنایہ علی الہدایہ جلد 1 ، صفحہ 190 ۔ 201 ) ۔
بشارت وتصدیق یافتہ کتاب فرماتا ہے کہ اللہ کی اگلی کتابوں میں بھی اس پاک اور اللہ کی آخری کلام کی پیشن گوئی اور اسکی تصدیق وصفت موجود ہے ۔ اگلے نبیوں نے بھی اسکی بشارت دی یہاں تک کہ ان تمام نبیوں کے آخری نبی جن کے بعد حضور علیہ السلام تک اور کوئی نبی نہ تھا ۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو جمع کر کے جو خطبہ دیتے ہیں اس میں فرماتے ہیں کہ اے بنی اسرائیل ! میں تمہاری جانب اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جو اگلی کتابوں کو سچانے کے ساتھ ہی آنے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت تمہیں سناتا ہوں ۔ زبور حضرت داؤ دعلیہ السلام کی کتاب کا نام ہے یہاں زبر کا لفظ کتابوں کے معنی میں ہے جیسے فرمان ہے ۔ آیت ( وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوْهُ فِي الزُّبُرِ 52؀ ) 54- القمر:52 ) جو کچھ یہ کررہے ہیں سب کتابوں میں تحریر ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ سمجھیں اور ضد اور تعصب نہ کریں تو قرآن کی حقانیت پر یہی دلیل کیا کم ہے کہ خود بنی اسرائیل کے علماء اسے مانتے ہیں ۔ ان میں سے جو حق گو اور بےتعصب ہیں وہ توراۃ کی ان آیتوں کا لوگوں پر کھلے عام ذکر کر رہے ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت قرآن کا ذکر اور آپ کی حقانیت کی خبر ہے ۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان جیسے حق گو حضرات نے دنیا کے سامنے توراۃ وانجیل کی وہ آیتیں رکھ دیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان والا شان کو ظاہر کرنے والی تھیں ۔ اس کے بعد کی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس فصیح وبلیغ جامع بالغ حق کلام کو ہم کسی عجمی پر نازل فرماتے پھر بھی کوئی شک ہی نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ ہمارا کلام ہے ۔ مگر مشرکین قریش اپنے کفر اور اپنی سرکشی میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اس وقت بھی وہ ایمان نہ لاتے ۔ جیسے فرمان ہے کہ اگر آسمان کا دروازہ بھی ان کے لئے کھول دیا جاتا اور یہ خود چڑھ کر جاتے تب بھی یہی کہتے ہمیں نشہ پلادیا گیا ہے ۔ ہماری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے ۔ اور آیت میں ہے اگر ان کے پاس فرشتے آجاتے اور مردے بول اٹھتے تب بھی انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا ۔ ان پر عذاب کا کلمہ ثابت ہوچکا ، عذاب ان کا مقدر ہوچکا اور ہدایت کی راہ مسدود کردی گئی ۔