Surah

Information

Surah # 26 | Verses: 227 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 47 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 197 and 224-227, from Madina
فَقَرَاَهٗ عَلَيۡهِمۡ مَّا كَانُوۡا بِهٖ مُؤۡمِنِيۡنَؕ‏ ﴿199﴾
پس وہ ان کے سامنے اس کی تلاوت کرتا تو یہ اسے باور کرنے والے نہ ہوتے ۔
فقراه عليهم ما كانوا به مؤمنين
And he had recited it to them [perfectly], they would [still] not have been believers in it.
Pus woh inn kay samney iss ki tilawat kerta to yeh issay bawar kerney walay na hotay.
اور وہ ان کے سامنے پڑھ بھی دیتا تو یہ لوگ تب بھی اس پر ایمان نہ لاتے ۔ ( ٤٥ )
کہ وہ انھیں پڑھ کر سناتا جب بھی اس پر ایمان نہ لاتے ( ف۱٦۷ )
اور یہ ﴿فصیح عربی کلام﴾ وہ ان کو پڑھ کر سناتا تب بھی یہ مان کر نہ دیتے ۔ 124
سو وہ اس کو ان لوگوں پر پڑھتا تو ( بھی ) یہ لوگ اس پر ایمان لانے والے نہ ہوتے
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :124 یعنی اب ان ہی کی قوم کا ایک آدمی انہیں عربی مبین میں یہ کلام پڑھ کر سنا رہا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اسے خود تصنیف کر لیا ہے ، عرب کی زبان سے عربی تقریر ادا ہونے میں آخر معجزے کی کیا بات ہے کہ ہم اسے خدا کا کلام مان لیں ۔ لیکن اگر یہی فصیح عربی کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی غیر عرب پر بطور معجزہ نازل کر دیا جاتا اور وہ ان کے سامنے آ کر نہایت صحیح عربی لہجہ میں اسے پڑھتا تو یہ ایمان نہ لانے کے لیے دوسرا بہانہ تراشتے ، اس وقت یہ کہتے کہ اس پر کوئی جن آ گیا ہے جو عجمی کی زبان سے عربی بولتا ہے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، حٰم السجدہ ، حواشی 54 تا 58 ) ۔ اصل چیز یہ ہے کہ جو شخص حق پسند ہوتا ہے وہ اس بات پر غور کرتا ہے جو اس کے سامنے پیش کی جا رہی ہو اور ٹھنڈے دل سے سوچ سمجھ کر رائے قائم کرتا ہے کہ یہ معقول بات ہے یا نہیں ۔ اور جو شخص ہٹ دھرم ہوتا ہے اور نہ ماننے کا ارادہ کر لیتا ہے وہ اصل مضمون پر توجہ نہیں دیتا بلکہ اسے رد کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے تلاش کرتا ہے ۔ اس کے سامنے بات خواہ کسی طریقے سے پیش کی جائے ۔ وہ بہرحال اسے جھٹلانے کے لیے کوئی نہ کوئی وجہ پیدا کر لے گا ۔ کفار قریش کی اس ہٹ دھرمی کا پردہ قرآن مجید میں جگہ جگہ فاش کیا گیا ہے اور ان سے صاف صاف کہا گیا ہے کہ تم ایمان لانے کے لیے معجزہ دکھانے کی شرط آخر کس منہ سے لگاتے ہو ، تم تو وہ لوگ ہو کہ تمہیں خواہ کوئی چیز دکھا دی جائے تم اسے جھٹلانے کے لیے کوئی بہانہ نکال لو گے کیونکہ دراصل تمہیں حق بات مان کر نہیں دینی ہے : وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتَاباً فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْہُ بَاَیْدِیْھِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ O ( الانعام ۔ آیت 7 ) ۔ اگر ہم تیرے اوپر کاغذ میں لکھی ہوئی کوئی کتاب نازل کر دیتے اور یہ لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تو جن لوگوں نے نہیں مانا وہ کہتے کہ یہ تو کھلا جادو ہے ۔ وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَاباً مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوْا فِیْہِ یَعْرُجُوْنَ لَقَالُوْآ اِنَّمَا سُکِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ ( الحجر ۔ آیات 14 ۔ 15 ) ۔ اور اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ بھی کھول دیتے اور یہ اس میں چڑھنے لگتے تو یہ کہتے کہ ہماری آنکھوں کو دھوکا ہو رہا ہے ، بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے ۔