Surah

Information

Surah # 26 | Verses: 227 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 47 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 197 and 224-227, from Madina
كَذٰلِكَ سَلَكۡنٰهُ فِىۡ قُلُوۡبِ الۡمُجۡرِمِيۡنَؕ‏ ﴿200﴾
اسی طرح ہم نے گنہگاروں کے دلوں میں اس انکار کو داخل کر دیا ہے ۔
كذلك سلكنه في قلوب المجرمين
Thus have We inserted disbelief into the hearts of the criminals.
Issi tarah hum ney gunehgaron kay dilon mein iss inkar ko dakhil ker diya hai.
مجرموں کے دلوں میں تو ہم نے اس کو اسی طرح داخل کیا ہے ۔ ( ٤٦ )
ہم نے یونہی جھٹلانا پیرا دیا ہے مجرموں کے دلوں میں ( ف۱٦۸ )
اسی طرح ہم نے اس ﴿ذکر﴾ کو مجرموں کے دلوں میں گزارا ہے ۔ 125
اس طرح ہم نے اس ( کے انکار ) کو مجرموں کے دلوں میں پختگی سے داخل کر دیا ہے
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :125 یعنی یہ اہل حق کے دلوں کی طرح تسکین روح اور شفائے قلب بن کر ان کے اندر نہیں اترتا بلکہ ایک گرم لوہے کی سلاخ بن کر اس طرح گزرتا ہے کہ وہ سیخ پا ہو جاتے ہیں اور اس کے مضامین پر غور کرنے کے بجائے اس کی تردید کے لیے حربے ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں ۔
کفر و انکار تکذیب وکفر انکار وعدم تسلیم کو ان مجرموں کے دل میں بٹھا دیا ہے ۔ یہ جب تک عذاب اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ایمان نہیں لائیں گے ۔ اس وقت اگر ایمان لائے بھی تو محض بےسود ہوگا ان پر لعنت برس چکی ہوگی ۔ برائی مل چکی ہوگی ۔ نہ پچھتانا کام آئے نہ معذرت نفع دے ۔ عذاب اللہ آئیں گے اور اچانک ان کی بےخبری میں ہی آجائیں گے اس وقت ان کی تمنائیں اگر ذرا سی بھی مہلت پائیں تو نیک بن جائیں بےسود ہونگی ۔ ایک انہی پر کیا موقوف ہے ہر ظالم ، فاجر ، فاسق ، کافر بدکار عذاب کو دیکھتے ہی سیدھا ہوجاتا ہے ، نادم ہوتا ہے توبہ تلافی کرتا ہے مگر سب لاحاصل ۔ فرعون ہی کو دیکھئے حضرت موسیٰ نے اس کے لئے بد دعا کی جو قبول ہوئی عذاب کو دیکھ کر ڈوبتے ہوئے کہنے لگا کہ اب میں مسلمان ہوتا ہوں لیکن جواب ملاکہ یہ ایمان بےسود ہے ۔ اسی طرح ایک اور آیت میں ہے کہ ہمارا عذاب دیکھ کر ایمان کا اقرار کیا ۔ پھر ان کی ایک اور بدبختی بیان ہو رہی ہے کہ وہ اپنے نبیوں سے کہتے تھے اگر سچے ہو تو عذاب اللہ لاؤ ۔ اگرچہ ہم انہیں مہلت دیں اور کچھ دنوں تک کچھ مدت تک انہیں عذاب سے بچائے رکھیں ۔ پھر ان کے پاس ہمارا مقررہ عذاب آجائے ۔ ان کا حال ان کی نعمتیں ان کی جاہ وحشمت غرض کوئی چیز انہیں ذرا سابھی فائدہ نہیں دے سکتی ۔ اس وقت تک یہی معلوم ہوگا کہ شاید ایک صبح یا ایک شام ہی دنیا میں رہے ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے آیت ( يَوَدُّ اَحَدُھُمْ لَوْ يُعَمَّرُ اَلْفَ سَـنَةٍ ۚ وَمَا ھُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ يُّعَمَّرَ ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ 96؀ ) 2- البقرة:96 ) ان میں سے ہر ایک کی چاہت ہے کہ وہ ہزار ہزار سال جئے لیکن اتنی عمر بھی اللہ کے عذاب ہٹا نہیں سکتی ۔ یہی یہاں بھی فرمایا کہ اسباب ان کے کچھ کام نہ آئیں گے الٹا عذاب میں مبتلا ہوتے وقت ان کی تمام طاقتیں اور اسباب یونہی رکھے رکھے رہ جائیں گے ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ کافر کو قیامت کے دن لایا جائے گا ، پھر آگ میں ایک غوطہ دلاکر پوچھا جائے گا کہ تو نے کبھی راحت بھی اٹھائی ہے تو کہے گا کہ اللہ کی قسم میں نے کبھی کوئی راحت نہیں دیکھی اور ایک اس شخص کو لایا جائے گا جس نے پوری عمر واقعی کوئی راحت چکھی ہی نہ ہو ۔ اسے جنت کی ہوا کھلاکر لایا جائے گا اور سوال ہوگا کہ کیا تو نے عمر بھر کبھی کوئی برائی دیکھی ہے؟ تو وہ کہے گا اے اللہ تیری ذات پاک کی قسم میں نے کبھی کوئی زحمت نہیں اٹھائی ۔ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ عموما یہ شعر پڑھاکرتے تھے کہ جب تو اپنی مراد کو پہنچ گیا تو گویا تو نے کبھی کسی تکلیف کا نام بھی نہیں سنا ۔ اللہ عزوجل اس کے بعد اپنے عدل کی خبر دیتا ہے کہ کبھی اس نے حجت ختم ہونے سے پہلے کبھی کسی امت کو ختم نہیں کیا ۔ رسولوں کو بھیجتا کتابیں اتارتا ہے خبریں دیتا ہے ہوشیار کرتا ہے پھر نہ ماننے والوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ پس فرمایا کہ ایساکبھی نہیں ہوا کہ انبیائے کے بھیجنے سے پہلے ہی ہم نے کسی امت پر عذاب بھیج دئے ہوں ۔ ڈرانے والے بھیج کر نصیحت کرکے عذر ہٹا کر پھر نہ مانے پر عذاب ہوتا ہے جیسے فرمایا تیرا رب کسی بستی کو ہلاک نہیں کرتاجب تک کہ ان کی بستیوں کی صدر بستی میں کسی رسول نہ بھیج دے جو انہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے ۔