Surah

Information

Surah # 26 | Verses: 227 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 47 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 197 and 224-227, from Madina
مَاۤ اَغۡنٰى عَنۡهُمۡ مَّا كَانُوۡا يُمَتَّعُوۡنَؕ‏ ﴿207﴾
تو جو کچھ بھی یہ برتتے رہے اس میں سے کچھ بھی فائدہ نہ پہنچا سکے گا ۔
ما اغنى عنهم ما كانوا يمتعون
They would not be availed by the enjoyment with which they were provided.
To jo kuch bhi yeh barattay rahey iss mein say kuch bhi faeeda na phoncha sakay ga.
تو عیش کا جو سامان ان کو دیا جاتا رہا وہ انہیں ( عذاب کے وقت ) کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے ؟ ( ٤٨ )
تو کیا کام آئے گا ان کے وہ جو برتتے تھے ( ف۱۷۲ )
تو وہ سامان زیست جو ان کو ملا ہوا ہے ان کے کس کام آئے گا ؟ 128
۔ ( تو ) وہ چیزیں ( ان سے عذاب کو دفع کرنے میں ) کیا کام آئیں گی جن سے وہ فائدہ اٹھاتے رہے تھے
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :128 اس فقرے اور اس سے پہلے کے فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے سامع کا ذہن تھوڑا سا غور کر کے خود بھر سکتا ہے ۔ عذاب کے لیے ان کے جلدی مچانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ عذاب کے آنے کا کوئی اندیشہ نہ رکھتے تھے ۔ انہیں بھروسا تھا کہ جیسی چین کی بنسری آج تک ہم بجاتے رہے ہیں اسی طرح ہمیشہ بجاتے رہیں گے ۔ اسی اعتماد پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو چیلنج دیتے تھے کہ اگر واقعی تم خدا کے رسول ہو اور ہم تمہیں جھٹلا کر عذاب الٰہی کے مستحق ہو رہے ہیں تو لو ہم نے تمہیں جھٹلا دیا ، اب لے آؤ اپنا وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو ۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے ، اچھا اگر بالفرض ان کا یہ بھروسا صحیح ہی ہو ، اگر ان پر فوراً عذاب نہ آئے ، اگر انہیں دنیا میں مزے کرنے کے لیے ایک لمبی ڈھیل بھی مل جائے جس کی توقع پر یہ پھول رہے ہیں ، تو سوال یہ ہے کہ جب بھی ان پر عاد و ثمود یا قوم لوط اور اصحاب الایکہ کی سی کوئی آفت ناگہانی ٹوٹ پڑی جس سے محفوظ رہنے کی کسی کے پاس کوئی ضمانت نہیں ہے یا اور کچھ نہیں تو موت کی آخری گھڑی آن پہنچی جس سے بہرحال کسی کو مفر نہیں ، تو اس وقت عیش دنیا کے یہ چند سال آخر ان کے لیے کیا مفید ثابت ہوں گے ؟