Surah

Information

Surah # 26 | Verses: 227 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 47 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 197 and 224-227, from Madina
وَمَا يَنۡۢبَغِىۡ لَهُمۡ وَمَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَؕ‏ ﴿211﴾
نہ وہ اس کےقابل ہیں نہ انہیں اس کی طاقت ہے ۔
و ما ينبغي لهم و ما يستطيعون
It is not allowable for them, nor would they be able.
Aur na woh iss qabil hain na unhen iss ki taqat hai.
نہ یہ قرآن ان کے مطلب کا ہے اور نہ وہ ایسا کرسکتے ہیں ۔
اور وہ اس قابل نہیں ( ف۱۷۵ ) اور نہ وہ ایسا کرسکتے ہیں ( ف۱۷٦ )
نہ یہ کام ان کو سجتا ہے 131 ، اور نہ وہ ایسا کر ہی سکتے ہیں ۔ 132
نہ ( یہ ) ان کے لئے سزاوار ہے اور نہ وہ ( اس کی ) طاقت رکھتے ہیں
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :131 یعنی یہ کلام اور یہ مضامین شیاطین کے منہ پر پھبتے بھی تو نہیں ہیں ۔ کوئی عقل رکھتا ہو تو خود سمجھ سکتا ہے کہ کہیں یہ باتیں ، جو قرآن میں بیان ہو رہی ہیں ، شیاطین کی طرف سے بھی ہو سکتی ہیں ؟ کیا تمہاری بستیوں میں کاہن موجود نہیں ہیں اور شیاطین سے ربط ضبط رکھ کر جو باتیں وہ کرتے ہیں وہ تم نے کبھی نہیں سنیں ؟ کیا کبھی تم نے سنا ہے کہ کسی شیطان نے کسی کاہن کے ذریعہ سے لوگوں کو خدا پرستی اور خدا ترسی کی تعلیم دی ہو؟ شرک و بت پرستی سے روکا ہو؟ آخرت کی باز پرس کا خوف دلایا ہو؟ ظلم اور بدکاری اور بد اخلاقیوں سے منع کیا ہو؟ نیکو کاری اور راستبازی اور خلق خدا کے ساتھ احسان کی تلقین کی ہو؟ شیاطین کا یہ مزاج کہاں ہے ؟ ان کا مزاج تو یہ ہے کہ لوگوں میں فساد ڈلوائیں اور انہیں برائیوں کی طرف رغبت دلائیں ۔ ان سے تعلق رکھنے والے کاہنوں کے پاس تو لوگ یہ پوچھنے جاتے ہیں کہ عاشق کو معشوق ملے گا یا نہیں ؟ جوئے میں کونسا داؤ مفید رہے گا ؟ دشمن کو نیچا دکھانے کے لیے کیا چال چلی جائے ؟ اور فلاں شخص کا اونٹ کس نے چرایا ہے ؟ یہ مسائل اور معاملات چھوڑ کر کاہنوں اور ان کے سرپرست شیاطین کو خلق خدا کی اصلاح ، بھلائیوں کی تعلیم اور برائیوں کے استیصال کی کب سے فکر لاحق ہو گئی؟ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :132 یعنی شیاطین اگر کرنا چاہیں بھی تو یہ کام ان کے بس کا نہیں ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے بھی اپنے آپ کو انسانوں کے سچے معلم اور حقیقی مزکی کے مقام پر رکھ کر خالص حق اور خالص خیر کی وہ تعلیم دے سکیں جو قرآن دے رہا ہے ۔ وہ دھوکا دینے کی خاطر بھی اگر یہ روپ دھاریں تو ان کا کام ایسی آمیزشوں سے خالی نہیں ہو سکتا جو ان کی جہالت اور ان کے اندر چھپی ہوئی شیطانی فطرت کی غمازی نہ کر دیں ۔ نیت کی خرابی ، ارادوں کی نا پاکی ، مقاصد کی خباثت لازماً اس شخص کی زندگی میں بھی اور اس کی تعلیم میں بھی جھلک کر رہے گی جو شیاطین سے الہام حاصل کر کے پیشوا بن بیٹھا ہو ۔ بے آمیز راستی اور خالص نیکی نہ شیاطین القاء کر سکتے ہیں اور نہ ان سے ربط ضبط رکھنے والے اس کے حامل ہو سکتے ہیں ۔ پھر تعلیم کی بلندی و پاکیزگی پر مزید وہ فصاحت و بلاغت اور وہ علم حقائق ہے جو قرآن میں پایا جاتا ہے ۔ اسی بنیاد پر قرآن میں بار بار یہ چیلنج دیا گیا ہے کہ انسان اور جن مل کر بھی چاہیں تو اس کتاب کے مانند کوئی چیز تصنیف کر کے نہیں لا سکتے : قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلیٰٓ اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْراً ( بنی اسرائیل ۔ آیت 88 ) قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ O ( یونس ۔ آیت 38 ) ۔