Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِيۡبًا مِّنَ الۡكِتٰبِ يُدۡعَوۡنَ اِلٰى كِتٰبِ اللّٰهِ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَهُمۡ ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيۡقٌ مِّنۡهُمۡ وَهُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ‏ ﴿23﴾
کیا آپ نے انہیں دیکھا جنہیں ایک حصّہ کتاب کا دیا گیا ہے وہ اپنے آپس کے فیصلوں کے لئے اللہ تعالٰی کی کتاب کی طرف بلائے جاتے ہیں ، پھر بھی ایک جماعت ان کی منہ پھیر کر لوٹ جاتی ہے ۔
الم تر الى الذين اوتوا نصيبا من الكتب يدعون الى كتب الله ليحكم بينهم ثم يتولى فريق منهم و هم معرضون
Do you not consider, [O Muhammad], those who were given a portion of the Scripture? They are invited to the Scripture of Allah that it should arbitrate between them; then a party of them turns away, and they are refusing.
Kiya aap ney unhen nahi dekha jinhen aik hissa kitab ki diya gaya hai woh apney aapas kay faislon kay liye Allah Taalaa ki kitab ki taraf bulaye jatay hain phir bhi aik jamat inn ki mun pher ker lot jati hai.
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا تھا کہ انہیں اللہ کی کتاب کی طرف دعوت دی جاتی ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے ، اس کے باوجود ان میں سے ایک گروہ منہ موڑ کر انحراف کرجاتا ہے ۔
کیا تم نے انہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ ملا ( ف۵۱ ) کتاب اللہ کی طرف بلائے جاتے ہیں کہ وہ ان کا فیصلہ کرے پھر ان میں کا ایک گروہ اس سے روگرداں ہو کر پھر جاتا ہے ( ف۵۲ )
تم نے دیکھا نہیں کہ جن لوگوں کو کتاب کے علم میں سے کچھ حصّہ ملا ہے ، ان کا حال کیا ہے؟ انہیں جب کتابِ الٰہی کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے ، 22 تو ان میں سے ایک فریق اس سے پہلو تہی کرتا ہے اور اس فیصلے کی طرف آنے سے منہ پھیر جاتا ہے ۔
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں ( علمِ ) کتاب میں سے ایک حصہ دیا گیا وہ کتابِ الٰہی کی طرف بلائے جاتے ہیں تاکہ وہ ( کتاب ) ان کے درمیان ( نزاعات کا ) فیصلہ کر دے تو پھر ان میں سے ایک طبقہ منہ پھیر لیتا ہے اور وہ روگردانی کرنے والے ہی ہیں
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :22 یعنی ان سے کہا جاتا ہے کہ خدائی کتاب کو آخری سند مان لو ، اس کے فیصلے کے آگے سر جھکا دو اور جو کچھ اس کی رو سے حق ثابت ہو ، اسے حق اور جو اس کی رو سے باطل ثابت ہو ، اسے باطل تسلیم کر لو ۔ واضح رہے کہ اس مقام پر خدا کی کتاب سے مراد تورات و انجیل ہے اور ”کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ پانے والوں“ سے مراد یہود و نصاریٰ کے علما ہیں ۔
جھوٹے دعوے یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ یہود و نصاریٰ اپنے اس دعوے میں بھی جھوٹے ہیں کہ ان کا توراۃ و انجیل پر ایمان ہے کیونکہ ان کتابوں کی ہدایت کے مطابق جب انہیں اس نبی آخرالزمان کی اطاعت کی طرف بلایا جاتا ہے تو یہ منہ پھیر کے بھاگتے دکھائی دیتے ہیں ، اس سے ان کی اعلیٰ درجہ کی سرکشی تکبر اور عناد و مخالفت ظاہر ہو رہی ہے ، اس مخالفت حق اور بےجا سرکشی پر انہیں اس چیز نے دلیر کر دیا ہے کہ انہوں نے اللہ کی کتاب میں نہ ہونے کے باوجود اپنی طرف سے جھوٹ بنا کر کے یہ بات بنا لی ہے کہ ہم تو صرف چند روز ہی آگ میں رہیں گے یعنی فقط سات روز ، دنیا کے حساب کے ہر ہزار سال کے پیچھے ایک دن ، اس کی پوری تفسیر سورۃ بقرہ میں گذر چکی ہے ، اسی واہی اور بےسروپا خیال نے انہیں باطل دین پر انہیں جما دیا ہے بلکہ یہ خود اللہ نے ایسی بات نہیں کہی ان کا خیال ہے نہ اس کی کوئی کتابی دلیل ان کے پاس ہے ، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں ڈانٹتا اور دھمکاتا ہے اور فرماتا ہے ان کا قیامت والے دن بدتر حال ہو گا ؟ کہ انہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا رسولوں کو جھٹلایا انبیاء کو اور علماء حق کو قتل کیا ، ایک ایک بات کا اللہ کو جواب دینا پڑے گا اور ایک ایک گناہ کی سزا بھگتنی پڑے گی ، اس دن کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں اس دن ہر شخص پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر بھی کسی طرح کا ظلم روانہ رکھا جائے گا ۔