Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اِذۡ قَالَ مُوۡسٰى لِاَهۡلِهٖۤ اِنِّىۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًاؕ سَاٰتِيۡكُمۡ مِّنۡهَا بِخَبَرٍ اَوۡ اٰتِيۡكُمۡ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمۡ تَصۡطَلُوۡنَ‏ ﴿7﴾
۔ ( یاد ہوگا ) جبکہ موسیٰ ( علیہ السلام ) نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے میں وہاں سے یا تو کوئی خبر لے کر یا آگ کا کوئی سلگتا ہوا انگارا لے کر ابھی تمہارے پاس آجاؤں گا تاکہ تم سینک تاپ کر لو ۔
اذ قال موسى لاهله اني انست نارا ساتيكم منها بخبر او اتيكم بشهاب قبس لعلكم تصطلون
[Mention] when Moses said to his family, "Indeed, I have perceived a fire. I will bring you from there information or will bring you a burning torch that you may warm yourselves."
( yaad hoga ) jab musa ( alh-e-salam ) ney apnay ghar walon say kaha mein ney aag dekhi hai mein wahan say ya to koi khabar ley ker ya aag ka koi sulagta hua angara ley ker abhi tumharay pass aajaonga takay tum seenk taap kerlo.
اس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا تھا کہ : مجھے ایک آگ نظر آئی ہے ۔ میں ابھی تمہارے پاس وہاں سے کوئی خبر لے کر آتا ہوں ، یا پھر تمہارے پاس آگ کا کوئی شعلہ اٹھا کرلے آؤں گا ، تاکہ تم آگ سے گرمی حاصل کرسکو ۔ ( ٢ )
جب کہ موسیٰ نے اپنی گھر والی سے کہا ( ف۹ ) مجھے ایک آگ نظر پڑی ہے عنقریب میں تمہارے پاس اس کی کوئی خبر لاتا ہوں یا اس میں سے کوئی چمکتی چنگاری لاؤں گا کہ تم تاپو ( ف۱۰ )
﴿انہیں اس وقت کا قصہ سناؤ﴾ جب موسی ( علیہ السلام ) نے اپنے گھر والوں سے کہا 8 کہ ” مجھے ایک آگ سی نظر آئی ہے ، میں ابھی یا تو وہاں سے کوئی خبر لے کر آتا ہوں یا کوئی انگارا چن لاتا ہوں تاکہ تم لوگ گرم 9 ہو سکو ۔ ”
۔ ( وہ واقعہ یاد کریں ) جب موسٰی ( علیہ السلام ) نے اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ میں نے ایک آگ دیکھی ہے ( یا مجھے ایک آگ میں شعلۂ انس و محبت نظر آیا ہے ) ، عنقریب میں تمہارے پاس اس میں سے کوئی خبر لاتا ہوں ( جس کے لئے مدت سے دشت و بیاباں میں پھر رہے ہیں ) یا تمہیں ( بھی اس میں سے ) کوئی چمکتا ہوا انگارا لا دیتا ہوں تاکہ تم ( بھی اس کی حرارت سے ) تپ اٹھو
سورة النمل حاشیہ نمبر :8 یہ اس وقت کا قصہ ہے جب حضرت موسی علیہ السلام مدین میں آٹھ دس سال گزارنے کے عبد اپنے اہل و عیال کو ساتھ لیکر کوئی ٹھکانا تلاش کرنے جارہے تھے ، مدین کا علاقہ خلیج عقبہ کے کنارے عرب اور جزیرہ نمائے سینا کے سواحل پر واقع تھا ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم الشعرء ، حاشیہ 115 ) وہاں سے چل کر حضرت موسی جزیرہ نمائے سینا کے جنوبی حصے میں اس مقام پر پہنچے جو اب کوہ سینا اور جبل موسی کہلاتا ہے اور نزول قرآن کے زمانہ میں طور کے نام سے مشہور تھا ، اسی کے دامن میں وہ واقعہ پیش آیا جس کا یہاں ذکر ہورہا ہے ۔ یہاں جو قصہ بیان کیا جارہا ہے اس کی تفصیلات اس سے پہلے سورہ طہ ( رکوع 1 ) میں گزر چکی ہیں اور آگے سورہ قصص ( رکوع 4 ) میں آرہی ہیں ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر :9 فحوائے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رات کا وقت اور جاڑے کا موسم تھا ، اور حضرت موسی ایک اجنبی علاقے سے گزر رہے تھے جس سے انہیں کچھ زیادہ واقفیت نہ تھی ، اس لیے انہوں نے اپنے گھر والوں سے فرمایا کہ میں جاکر معلوم کرتا ہوں یہ کون سی بستی ہے جہاں آگ جل رہی ہے ، آگے کدھر راستے جاتے ہیں اور کون کون سی بستیاں قریب ہیں ۔ تاہم اگر وہ بھی ہماری ہی طرح کوئی چلتے پھرتے مسافر ہوئے جن سے کوئی معلومات حاصل نہ ہوسکیں تو کم از کم میں کچھ انگارے ہی لے آؤں گا کہ تم لوگ آگ جلا کر چکھ گرمی حاصل کرسکو ۔ یہ مقام جہاں حضرت موسی نے جھاڑی میں آگ لگی ہوئی دیکھی تھی کوہ طور کے دامن میں سطح سمندر سے تقریبا 5 ہزار فیٹ کی بلندی پر واقع ہے ، یہاں رومی سلطنت کے پہلے عیسائی بادشاہ قسطنطین نے 365 کے لگ بھگ زمانے میں ٹھیک اس مقام پر ایک کنیسہ تعمیر کرادیا تھا جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا ، اس کے دو سو برس بعد قیصر جسٹینین نے یہاں ایک دیر ( Monastery ) تعمیر کرایا جس کے اندر قسطنطین کے بنائے ہوئے کنیسہ کو بھی شامل کرلیا ، یہ دیر اور کنیسہ دونوں آج تک موجود ہیں اور یونانی کلیسا ( Greek Orthodox Church ) کے راہبوں کا ان پر قبضہ ہے ، میں نے جنوری 1960ء میں اس مقام کی زیارت کی ہے ، مقابل کے صفحہ پر اس مقام کی کچھ تصاویر ملاحظہ ہوں ۔
آگ لینے گئے رسالت مل گئی اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ یاد دلارہا ہے کہ اللہ نے انہیں کس طرح بزرگ بنایا اور ان سے کلام کیا اور انہیں زبردست معجزے عطا فرمائے اور فرعون اور فرعونیوں کے پاس اپنا رسول بنا کر بھیجا لیکن کفارنے آپ کا انکار کیا اپنے کفر وتکبر سے نہ ہٹے آپ کی اتباع اور پیروی نہ کی ۔ فرماتا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام اپنی اہل کو لے کر چلے اور راستہ بھول گئے رات آگئی اور وہ بھی سخت اندھیرے والی ۔ تو آپ نے دیکھا کہ ایک جانب سے آگ کا شعلہ سا دکھائی دیتا ہے آپ نے اپنی اہل سے فرمایا کہ تم تو یہیں ٹھہرو ۔ میں اس روشنی کے پاس جاتا ہوں کیا عجب کہ وہاں سے جو ہو اس سے راستہ معلوم ہوجائے یا میں وہاں کچھ آگ لے آؤں کہ تم اسے ذرا سینک تاپ کرلو ۔ ایسا ہی ہوا کہ آپ وہاں سے ایک بڑی خبر لائے اور بہت بڑا نور حاصل کیا فرماتا ہے کہ جب وہاں پہنچے اس منظر کو دیکھ کر حیر ان رہ گئے دیکھتے ہیں کہ سرسبز درخت ہے اس پر آگ لپٹی رہی شعلے تیز ہورہے ہیں اور درخت کی سرسبزی اور بڑھ رہی ہے ۔ اونچی نگاہ کی تو دیکھا کہ وہ نور آسمان تک پہنچا ہوا ہے ۔ فی الوقع وہ آگ نہ تھی بلکہ نور تھا اور نور بھی وحدہ لاشریک کا ۔ حضرت موسیٰ متعجب تھے اور کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی ۔ کہ یکایک ایک آواز آتی ہے کہ اس نور میں جو کچھ ہے وہ پاکی والا اور بزرگی والا ہے اور اس کے پاس جو فرشتے ہیں وہ بھی مقدس ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سوتا نہیں اور نہ اسے سونا لائق ہے وہ ترازو کو پست کرتا ہے اور اونچی کرتا ہے رات کے کام اس کی طرف دن سے پہلے اور دن کے کام رات سے پہلے چڑھ جاتے ہیں ۔ اسکا حجاب نور یا آگ ہے اگر وہ بٹ جائیں تو اس کے چہرے کی تجلی ہر چیز کو جلادیں جس پر اسکی نگاہ پہنچ رہی ہے یعنی کل کائنات کو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ راوی حدیث نے یہ حدیث بیان فرما کر یہی آیت تلاوت کی ۔ یہ الفاظ ابن ابی حاتم کے ہیں اور اس کی اصل صحیح مسلم میں ہے ۔ پاک ہے وہ اللہ جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے مخلوق میں سے کوئی بھی اس کے مشابہ نہیں ۔ اس کی مصنوعات میں سے کوئی چیز کسی کے احاطے میں نہیں ۔ وہ بلند وبالا ہے ساری مخلوق سے الگ ہے زمین وآسمان اسے گھیر نہیں سکتے وہ احد وصمد سے وہ مخلوق کی مشابہت سے پاک ہے پھر خبر دی کہ خود اللہ تعالیٰ ان سے خطاب فرما رہا ہے وہی اسی وقت سرگوشیاں کررہا ہے جو سب پر غالب ہے سب اس کے ماتحت اور زیر حکم ہیں ۔ وہ اپنے اقوال وافعال میں حکمت والا ہے اس کے بعد جناب باری عزوجل نے حکم دیا کہ اے موسیٰ اپنی لکڑی کو زمین پر ڈال دو تاکہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکو کہ اللہ تعالیٰ فاعل مختار ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے ارشاد سنتے ہی لکڑی کو زمین پر گرایا ۔ اسی وقت وہ ایک پھن اٹھائے پھنکارتا ہوا سانپ بن گئی اور بہت بڑے جسم کا سانپ بڑی ڈراؤنی صورت اس موٹاپے پر تیز تیز چلنے والا ۔ ایسا جیتا جاگتا چلتا پھرتا زبردست اژدہا دیکھ کر حضرت موسیٰ خوف زدہ ہوگئے جان کا لفظ قرآن کریم میں ہے یہ ایک قسم کے سانپ ہیں جو بہت تیزی سے حرکت کرنے والے اور کنڈی لگانے والے ہوتے ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں رہنے والے ایسے سانپوں کے قتل سے ممانعت فرمائی ہے ۔ الغرض جناب موسیٰ اسے دیکھ کر ڈرے اور دہشت کے مارے ٹھہر نہ سکے اور منہ موڑ کر پیٹھ پھر کر وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے ایسے دہشت زدہ تھے کہ مڑ کر بھی نہ دیکھا ۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ موسیٰ ڈرو نہیں ۔ میں تو تمہیں اپنا برگزیدہ رسول اور ذی عزت پیغمبر بنانا چاہتا ہوں ۔ اس کے بعد استثناء منقطع ہے اس آیت میں انسان کے لیے بہت بڑی بشارت ہے کہ جس نے بھی کوئی برائی کا کام کیا ہو پھر وہ اس پر نادم ہو جائے اس کام کو چھوڑ دے توبہ کرلے اللہ تعالیٰ کی طرف جھک جائے تو اللہ تعالیٰ اسکی توبہ قبول فرمالیتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَاِنِّىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى 82؁ ) 20-طه:82 ) جو بھی توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور راہ راست پر چلے میں اس کے گناہوں کو بخشنے والا ہوں اور فرمان ہے آیت ( وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ١١٠؁ ) 4- النسآء:110 ) جو شخص کسی برائی کا مرتکب ہوجائے یا کوئی گناہ کر بیٹھے پھر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے تو وہ یقینا اللہ تعالیٰ کو غفور ورحیم پائے گا ۔ اس مضمون کی آیتیں کلام الھی میں اور بھی بہت ساری ہیں ۔ لکڑی کے سانپ بن جانے کے معجزے کے ساتھ ہی کلیم اللہ کو اور معجزہ دیا جاتا ہے کہ آپ جب بھی اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر نکالیں گے تو وہ چاند کی طرح چمکتا ہو کر نکلے گا یہ دو معجزے ان نو معجزوں میں سے ہے کہ جن سے میں تیری وقتا فوقتا تائید کرتا رہونگا ۔ تاکہ فاسق فرعون اور اس کی فاسق قوم کے دلوں میں تیری نبوت کا ثبوت جگہ پکڑجائے یہ نو معجزے وہ تھے جن کا ذکر آیت ( وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ فَسْــــَٔـلْ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِذْ جَاۗءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًا ١٠١؁ ) 17- الإسراء:101 ) میں ہے جس کی پوری تفسیر بھی اس آیت کے تحت میں گزر چکی ہے جب یہ واضح ظاہر صاف اور کھلے معجزے فرعونیوں کو دکھائے گئے تو وہ اپنی ضد میں آکر کہنے لگے یہ تو جادو ہے لو ہم اپنے جادوگروں کو بلالیتے ہیں مقابلہ کرلو اس مقابلہ میں اللہ نے حق کو غالب کیا اور سب لوگ زیر ہوگئے مگر پھر بھی نہ مانے ۔ گو دلوں میں اس کی حقانیت جم چکی تھی ۔ لیکن ظاہر مقابلہ سے ہٹے ۔ صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر حق کو جھٹلاتے رہے اب تو دیکھ لے کہ ان مفسدوں کا انجام کس طرح حیرتناک اور کیسا کچھ عبرت ناک ہوا ؟ ایک ہی مرتبہ ایک ہی ساتھ سارے کے سارے دریا برد کردئے گئے ۔ پس اے آخری نبی الزمان کے جھٹلانے والو تم اس نبی کو جھٹلاکر مطمئن نہ بیٹھو ۔ کیونکہ یہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی اشرف وافضل ہیں ان کی دلیلیں اور معجزے بھی ان کی دلیلوں اور معجزوں سے بڑے ہیں خود آپ کا وجود آپ کے عادات واخلاق اور اگلی کتابوں کی اور اگلے نبیوں کی آپ کی نسبت بشارتیں اور ان سے اللہ کا عہد پیمان یہ سب چیزیں آپ میں ہیں پس تمہیں نہ مان کر نڈر اور بےخوف نہ رہنا چاہئے ۔