Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
فَلَمَّا جَآءَهَا نُوۡدِىَ اَنۡۢ بُوۡرِكَ مَنۡ فِى النَّارِ وَ مَنۡ حَوۡلَهَا ؕ وَسُبۡحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿8﴾
جب وہاں پہنچے تو آواز دی گئی کہ بابرکت ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور برکت دیا گیا ہے وہ جو اس کے آس پاس ہے اور پاک ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ۔
فلما جاءها نودي ان بورك من في النار و من حولها و سبحن الله رب العلمين
But when he came to it, he was called, "Blessed is whoever is at the fire and whoever is around it. And exalted is Allah , Lord of the worlds.
Jab wahan phonchay to aawaz di gaee kay ba-barkat hai woh jo iss aag mein hai aur barkat diya gaya hai woh jo uss kay aas pass hai aur pak hai Allah jo tamam jahano ka palney wala hai.
چنانچہ جب وہ اس آگ کے پاس پہنچے تو انہیں آواز دی گئی کہ : برکت ہو ان پر جو اس آگ کے اندر ہیں ، اور اس پر بھیجو اس کے آس پاس ہے ( ٣ ) اور پاک ہے اللہ جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے ۔
پھر جب آگ کے پاس آیا ندا کی گئی کہ برکت دیا گیا وہ جو اس آگ کی جلوہ گاہ میں ہے یعنی موسیٰ اور جو اس کے آس پاس میں یعنی فرشتے ( ف۱۱ ) اور پاکی ہے اللہ کو جو رب ہے سارے جہان کا ،
وہاں جو پہنچا تو ندا آئی 10 کہ ” مبارک ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور جو اس کے ماحول میں ہے ۔ پاک ہے اللہ ، سب جہان والوں کا پروردگار ۔ 11
پھر جب وہ اس کے پاس آپہنچے تو آواز دی گئی کہ بابرکت ہے جو اس آگ میں ( اپنے حجاب نور کی تجلی فرما رہا ) ہے اور وہ ( بھی ) جو اس کے آس پاس ( اُلوہی جلووں کے پرتَو میں ) ہے ، اور اللہ ( ہر قسم کے جسم و مثال سے ) پاک ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے
سورة النمل حاشیہ نمبر :10 سورہ قصص میں ہے کہ ندا ایک درخت سے آرہی تھی فِي الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ ، اس سے جو صورت معاملہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ وادی کے کنارے سے ایک خطے میں آگ سی لگی ہوئی تھی مگر نہ کچھ جل رپا تجا نہ کوئی دھواں اٹھ رہا تھا اور اس آگ کے اندر ایک ہرا بھرا درخت کھڑا تھا جس پر سے یکایک یہ ندا آنی شروع ہوئی ۔ یہ ایک عجیب معاملہ ہے جو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ پیش آتا رہا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلی مرتبہ نبوت سے سرفراز کیے گئے تو غار حرا کی تنہائی میں یکا یک ایک فرشتہ آیا اور اس نے اللہ کا پیغام پہنچانا شروع کردیا ، حضرت موسی کے ساتھ بھی یہی صورت پیش آئی کہ ایک شخص سفر کرتا ہوا ایک جگہ ٹھہرا ہے ، دور سے آگ دیکھ کر راستہ پوچھنے یا انگارا چننے کی غرض سے آتا ہے اور یکلخت اللہ رب العالمین کی ہر قیاس و گمان سے بالا ذات اس سے مخاطب ہوجاتی ہے ۔ ان مواقع پر درحقیقت ایک ایسی غیر معمولی کیفیت خارج میں بھی اور انبیاء علیہم السلام کے نفس میں بھی موجود ہوتی ہے جس کی بنا پر انہیں اس امر کا یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ یہ کسی جن یا شیطان یا خود ان کے اپنے ذہن کا کوئی کرشمہ نہیں ہے ، انہ ان کے حواش کوئی دھوکا کھا رہے ہیں ، بلکہ فی الواقع یہ خداوند عالم یا اس کا فرشتہ ہی ہے جو ان سے ہمکلام ہے ، ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو النجم ، حاشیہ 10 ) سورة النمل حاشیہ نمبر :11 اس موقع پر سبحان اللہ ارشاد ارشاد فرمانے سے دراصل حضرت موسی کو اس بات پر متنبہ کرنا مقصود تھا کہ یہ معاملہ کمال درجہ تنزیہ کے ساتھ پیش آرہا ہے ، یعنی ایسا نہیں ہے کہ اللہ رب العالمین اس درخت پر بیٹھا ہو ، یا اس میں حلول کر آیا ہو ، یا اس کا نور مطلق تمہاری بینائی کے حدود میں سما گیا ہو ، یا کوئی زبان کسی منہ میں حرکت کر کے یہاں کلام کر رہی ہو ، بلکہ ان تمام محدود دیتوں سے پاک اور منزہ ہوتے ہوئے وہ بذات خود تم سے مخاطب ہے ۔