Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اِلَّا مَنۡ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسۡنًۢا بَعۡدَ سُوۡٓءٍ فَاِنِّىۡ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿11﴾
لیکن جو لوگ ظلم کریں پھر اس کے عوض نیکی کریں اس برائی کے پیچھے تو میں بھی بخشنے والا مہربان ہوں ۔
الا من ظلم ثم بدل حسنا بعد سوء فاني غفور رحيم
Otherwise, he who wrongs, then substitutes good after evil - indeed, I am Forgiving and Merciful.
Lekin jo log zulm keren phir uss kay ewaz neki keren uss buraee kay peechay to mein bhi bakshney wala meharbaan hun.
الا یہ کہ کسی نے کوئی زیادتی کی ہو ۔ ( ٤ ) پھر وہ برائی کے بعد اسے بدل کر اچھے کام کرلے ، تو میں بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہوں ۔
ہاں جو کوئی زیادتی کرے ( ف۱٤ ) پھر برائی کے بعد بھلائی سے بدلے تو بیشک میں بخشنے والا مہربان ہوں ( ف۱۵ )
الا یہ کہ کسی نے قصور کیا ہو ۔ 14 پھر اگر برائی کے بعد اس نے بھلائی سے ﴿اپنے فعل کو﴾ بدل لیا تو میں معاف کرنے والا مہربان ہوں ۔ 15
مگر جس نے ظلم کیا پھر برائی کے بعد ( اسے ) نیکی سے بدل دیا تو بیشک میں بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہوں
سورة النمل حاشیہ نمبر :14 یہ استثناء متصل بھی ہوسکتا ہے اور منقطع بھی ، متصل ہونے کی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ خوف کی معقول وجہ اگر ہوسکتی ہے تو یہ کہ رسول سے کوئی قصور سرزد ہوا ہو ، اور منقطع ہونے کی صورت میں مراد یہ ہوگی کہ میرے حضور تو کسی کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہے جب تک کہ آدمی قصور وار نہ ہو ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر :15 یعنی قصور کرنے والا بھی اگر توبہ کر کے اپنے رویے کی اصلاح کرلے اور برے عمل کے بجائے نیک عمل کرنے لگے تو میرے ہاں اس کے لیے عفو و درگزر کا دروازہ کھلا ہے ، اس موقع پر یہ بات ارشاد فرمانے سے مقصود ایک تنبیہ بھی تھی اور بشارت بھی ۔ حضرت موسی علیہ السلام نادانستگی میں ایک قبطی کو قتل کر کے مصر سے نکلے تھے ، یہ ایک قصور تھا جس کی طرف لطیف اشارہ فرمادیا گیا ، پھر جس وقت یہ قصور اچانک بلا ارادہ ان سے سرزد ہوا تھا اس کے بعد فورا ہی انہوں نے اللہ تعالی سے معافی مانگ لی تھی کہ رَبِّ اِنِّىْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ فَاغْفِرْ لِيْ ( اے پروردگار میں اپنے نفس پر ظلم کر گزرا مجھے معاف فرمادے ) اور اللہ تعالی نے اسی وقت انہیں معاف بھی فرما دیا تھا ، فَغَفَرَ لَهٗ ( القصص ، آیت16 ) اب یہاں اسی معافی کی بشارت انہیں دی گئی ہے ، گویا مطلب اس تقریر کا یہ ہوا کہ اے موسی میرے حضور تمہارے لیے ڈرنے کی ایک وجہ تو ضرور ہوسکتی تھی ، کینکہ تم سے ایک قصور سرزد ہوگیا تھا ، لیکن جب تم اس برائی کو بھلائی سے بدل چکے ہو تو میرے پاس تمہارے لیے اب مغفرت اور رحمت کے سوا کچھ نہیں ہے ، کوئی سزا دینے کے لیے اس وقت میں نے تمہیں نہیں بلایا ہے بلکہ بڑے بڑے معجزات دے کر میں تمہیں ایک کار عظیم پر بھیجنے والا ہوں ۔