سورة النمل حاشیہ نمبر :14
یہ استثناء متصل بھی ہوسکتا ہے اور منقطع بھی ، متصل ہونے کی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ خوف کی معقول وجہ اگر ہوسکتی ہے تو یہ کہ رسول سے کوئی قصور سرزد ہوا ہو ، اور منقطع ہونے کی صورت میں مراد یہ ہوگی کہ میرے حضور تو کسی کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہے جب تک کہ آدمی قصور وار نہ ہو ۔
سورة النمل حاشیہ نمبر :15
یعنی قصور کرنے والا بھی اگر توبہ کر کے اپنے رویے کی اصلاح کرلے اور برے عمل کے بجائے نیک عمل کرنے لگے تو میرے ہاں اس کے لیے عفو و درگزر کا دروازہ کھلا ہے ، اس موقع پر یہ بات ارشاد فرمانے سے مقصود ایک تنبیہ بھی تھی اور بشارت بھی ۔ حضرت موسی علیہ السلام نادانستگی میں ایک قبطی کو قتل کر کے مصر سے نکلے تھے ، یہ ایک قصور تھا جس کی طرف لطیف اشارہ فرمادیا گیا ، پھر جس وقت یہ قصور اچانک بلا ارادہ ان سے سرزد ہوا تھا اس کے بعد فورا ہی انہوں نے اللہ تعالی سے معافی مانگ لی تھی کہ رَبِّ اِنِّىْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ فَاغْفِرْ لِيْ ( اے پروردگار میں اپنے نفس پر ظلم کر گزرا مجھے معاف فرمادے ) اور اللہ تعالی نے اسی وقت انہیں معاف بھی فرما دیا تھا ، فَغَفَرَ لَهٗ ( القصص ، آیت16 ) اب یہاں اسی معافی کی بشارت انہیں دی گئی ہے ، گویا مطلب اس تقریر کا یہ ہوا کہ اے موسی میرے حضور تمہارے لیے ڈرنے کی ایک وجہ تو ضرور ہوسکتی تھی ، کینکہ تم سے ایک قصور سرزد ہوگیا تھا ، لیکن جب تم اس برائی کو بھلائی سے بدل چکے ہو تو میرے پاس تمہارے لیے اب مغفرت اور رحمت کے سوا کچھ نہیں ہے ، کوئی سزا دینے کے لیے اس وقت میں نے تمہیں نہیں بلایا ہے بلکہ بڑے بڑے معجزات دے کر میں تمہیں ایک کار عظیم پر بھیجنے والا ہوں ۔