Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَجَدْتُّهَا وَقَوۡمَهَا يَسۡجُدُوۡنَ لِلشَّمۡسِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيۡطٰنُ اَعۡمَالَهُمۡ فَصَدَّهُمۡ عَنِ السَّبِيۡلِ فَهُمۡ لَا يَهۡتَدُوۡنَۙ‏ ﴿24﴾
میں نے اسے اور اس کی قوم کو ، اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا ، شیطان نے ان کے کام انہیں بھلے کرکے دکھلا کر صحیح راہ سے روک دیا ہے پس وہ ہدایت پر نہیں آتے ۔
وجدتها و قومها يسجدون للشمس من دون الله و زين لهم الشيطن اعمالهم فصدهم عن السبيل فهم لا يهتدون
I found her and her people prostrating to the sun instead of Allah , and Satan has made their deeds pleasing to them and averted them from [His] way, so they are not guided,
Mein ney ussay aur uss ki qom ko Allah Taalaa ko chor ker sorraj ko sajda kertay huye paya shetan ney unn kay kaam unhen bhalay ker kay dikhla ker sahih raah say rok diya hai pus woh hidayat per nahi aatay.
میں نے اس عورت اور اس کی قوم کو پایا ہے کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر سورج کے آگے سجدے کرتے ہیں ، اور شیطان نے ان کو یہ سمجھا دیا ہے کہ ان کے اعمال بہت اچھے ہیں ، چنانچہ اس نے انہیں صحیح راستے سے روک رکھا ہے اور اس طرح وہ ہدایت سے اتنے دور ہیں ۔
میں نے اسے اور اس کی قوم کو پایا کہ اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں ( ف۳۹ ) اور شیطان نے ان کے اعمال ان کی نگاہ میں سنوار کر ان کو سیدھی راہ سے روک دیا ( ف٤۰ ) تو وہ راہ نہیں پاتے ،
میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے سورج کے آگے سجدہ 30 کرتی ہے ” شیطان 31 نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے 32 اور انہیں شاہراہ سے روک دیا ، اس وجہ سے وہ یہ سیدھا راستہ نہیں پاتے
میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ کی بجائے سورج کو سجدہ کرتے پایا ہے اور شیطان نے ان کے اَعمالِ ( بد ) ان کے لئے خوب خوش نما بنا دیئے ہیں اور انہیں ( توحید کی ) راہ سے روک دیا ہے سو وہ ہدایت نہیں پا رہے
سورة النمل حاشیہ نمبر :30 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم اس زمانے میں آفتاب پرستی کے مذہب کی پیرو تھی ، عرب کی قدیم روایات سے بھی اس کا یہی مذہب معلوم ہوتا ہے ، چنانچہ ابن اسحاق علمائے انساب کا یہ قول نقل کرتا ہے کہ سبا کی قوم دراصل ایک مورث اعلی کی طرف منسوب ہے جس کا نام عبد شمس ( بندہ آفتاب یا سورج کا پرستار ) اور لقب سبا تھا ۔ بنی اسرائیل کی روایات بھی اسی کی تائید کرتی ہیں ، ان میں بیان کیا گیا ہے کہ ہدہد جب حضرت سلیمان کا خط لیکر پہنچا تو ملکہ سبا سورج دیوتا کی پرستش کے لیے جارہی تھی ۔ ہدہد نے راستے ہی میں وہ خط ملکہ کے سامنے پھینک دیا ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 31 انداز کلام سے اسیا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں سے آخر پیرا گراف تک کی عبادت ہدہد کے کلام کا جز نہیں ہے بلکہ سورج کے آگے سجدہ رکتی ہے پر اس کی بات ختم ہوگئی اور اس کے بعد اب یہ ارشاد اللہ تعالی کی طرف سے اس پر بطور اضافہ ہے ۔ اس قیاس کو جو چیز تقویت دیتی ہے وہ یہ فقرہ ہے وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو ۔ ان الفاظ سے یہ گمان غالب ہوتا ہے کہ متکلم ہدہد اور مخاطب حضرت سلیمان کے اہل دربار نہیں ہیں بلکہ متکلم اللہ تعالی اور مخاطب مشرکین مکہ ہیں جن کو نصیحت کرنے ہی کے لیے یہ قصہ سنایا جارہا ہے ، مفسرین میں سے علامہ آلوسی ، صاحب روح المعانی بھی اسی قیاس کو ترجیح دیتے ہیں ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 32 یعنی دنیا کی دولت کمانے اور اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ شاندار بنانے کے جس کام میں وہ منہمک تھے ، شیطان نے ان کو بجھا دیا کہ بس یہی عقل و فکر کا ایک مصروف اور قوائے ذہنی و جسمانی کا ایک استعمال ہے ، اس سے زیادہ کسی دیز پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی حاجت ہی نہیں ہے کہ تم خواہ مخواہ اس فکر میں پڑو کہ اس ظاہر حیات دنیا کے پیچھے حقیقت واقعیہ کیا ہے اور تمہارے مذہب ، اخلاق ، تہذیب اور نظام حیات کی بنیادیں اس حقیقت سے مطابقت رکھتی ہیں یا سراسر اس کے خلاف جارہی ہیں ، شیطان نے ان کو مطمئن کردیا کہ جب تم دنیا میں دولت اور طاقت اور شان و شوکت کے لحاظ سے بڑھتے ہی چلے جارہے ہو تو پھر تمہیں یہ سوچنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ ہمارے یہ عقائد اور فلسفے اور نظریے ٹھیک ہیں یا نہیں ۔ ان کے ٹھیک ہونے کی تو یہی ایک دلیل کافی ہے کہ تم مزے سے دولت کما رہے ہو اور عیش اڑا رہے ہو ۔