Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اَلَّا يَسۡجُدُوۡا لِلّٰهِ الَّذِىۡ يُخۡرِجُ الۡخَبۡءَ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَيَعۡلَمُ مَا تُخۡفُوۡنَ وَمَا تُعۡلِنُوۡنَ‏ ﴿25﴾
کہ اسی اللہ کے لئے سجدے کریں جو آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ چیزوں کو باہر نکالتا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو وہ سب کچھ جانتا ہے ۔
الا يسجدوا لله الذي يخرج الخبء في السموت و الارض و يعلم ما تخفون و ما تعلنون
[And] so they do not prostrate to Allah , who brings forth what is hidden within the heavens and the earth and knows what you conceal and what you declare -
Kay ussi Allah kay liye sajday keren jo aasmano aur zaminon ki posheeda cheezon ko bahir nikalata hai aur jo kuch tum chupatay ho aur zahir kertay ho woh sab kuch janta hai.
کہ اللہ کو سجدہ نہیں کرتے ، جو آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزوں کو باہر نکال لاتا ہے ، اور تم جو کچھ چھپاؤ اور جو کچھ ظاہر کرو ، سب کو جانتا ہے ۔
کیوں نہیں سجدہ کرتے اللہ کو جو نکالتا ہے آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزیں ( ف٤۱ ) اور جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو ( ف٤۲ )
کہ اس خدا کو سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے33 اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو ۔ 34
اس لئے ( روکے گئے ہیں ) کہ وہ اس اللہ کے حضور سجدہ ریز نہ ہوں جو آسمانوں اور زمین میں پوشیدہ ( حقائق اور موجودات ) کو باہر نکالتا ( یعنی ظاہر کرتا ) ہے اور ان ( سب ) چیزوں کو جانتا ہے جسے تم چھپاتے ہو اور جسے تم آشکار کرتے ہو
سورة النمل حاشیہ نمبر :33 یعنی جو ہر آن ان چیزوں کو ظہور میں لا رہا ہے جو پیدائش سے پہلے نہ معلوم کہاں کہاں پوشیدہ تھیں زمین کے پیٹ سے ہر آن بے شمار نباتات نکال رہا ہے اور طرح طرح کے معدنیات خارج کر رہا ہے ، عالم بالا کی فضاؤں سے وہ وہ چیزیں سامنے لارہا ہے جن کے ظہور میں آنے سے پہلے انسان کا وہم و گمان بھی ان تک نہ پہنچ سکتا تھا ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر :34 یعنی اس کا علم ہر چیز پر حاوی ہے ، اس کے لیے ظاہر اور مخفی سب یکساں ہیں ، اس پر سب کچھ عیاں ہے ۔ اللہ تعالی کی ان دو صفات کو بطور نمونہ بیان کرنے سے مقصود دراصل یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ اگر وہ لوگ شیطان کے دھوکے میں نہ آتے تو یہ سیدھا راستہ انہیں صاف نظر آسکتا تھا کہ آفتاب نامی ایک دہکتا ہوا کرہ جو پیچارہ خود اپنے وجود کا ہوش بھی نہیں رکھتا ، کسی عبادت کا مستحق نہیں ہے ، بکہ صرف وہ ہستی اس کا استحقاق رکھتی ہے جو علیم و خبیر ہے اور جس کی قدرت ہر لحظہ نئے نئے کرشمے ظہور میں لارہی ہے ۔