Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
قَالَ سَنَـنۡظُرُ اَصَدَقۡتَ اَمۡ كُنۡتَ مِنَ الۡكٰذِبِيۡنَ‏ ﴿27﴾
سلیمان نے کہا ، اب ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے ۔
قال سننظر اصدقت ام كنت من الكذبين
[Solomon] said, "We will see whether you were truthful or were of the liars.
Suleman ney kaha abb hum dekhen gay kay tu ney sach kaha hai ya tu jhoota hai.
سلیمان نے کہا : ہم ابھی دیکھ لیتے ہیں کہ تم نے سچ کہا ہے یا جھوٹ بولنے والوں میں تم بھی شامل ہوگئے ہو ۔
سلیمان نے فرمایا اب ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا یا تو جھوٹوں میں ہے ( ف٤۳ )
سلیمان ( علیہ السلام ) نے کہا ” ابھی ہم دیکھے لیتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے ۔
۔ ( سلیمان علیہ السلام نے ) فرمایا: ہم ابھی دیکھتے ہیں کیا تو سچ کہہ رہا ہے یا توجھوٹ بولنے والوں سے ہے
تحقیق شروع ہوگئی ہدہد کی خبر سنتے ہی حضرت سلیمان نے اس کی تحقیق شروع کردی کہ اگر یہ سچا ہے تو قابل معافی اور اگر جھوٹا ہے تو قابل سزا ہے ۔ اسی سے فرمایا کہ میرا یہ خط بلقیس کو جو وہاں کی فرمانرواہے دے آ ۔ اس خط کو چونچ میں لے کر یا پر سے بندھواکر ہدہد اڑا ۔ وہاں پہنچ کر بلقیس کے محل میں گیا وہ اس وقت خلوت خانہ میں تھی ۔ اس نے ایک طاق میں سے وہ خط اسکے سامنے رکھا اور ادب کے ساتھ ایک طرف ہوگیا ۔ اسے سخت تعجب معلوم ہواحیرت ہوئی اور ساتھ ہی کچھ خوف ودہشت بھی ہوئی ۔ ، خط کو اٹھا کر مہر توڑ کر خط کھول کر پڑھا اس کے مضمون سے واقف ہو کر اپنے امراء وزراء سردار اور رؤسا کو جمع کیا اور کہنے لگی کہ ایک باوقعت خط میرے سامنے ڈالا گیا ہے اس خط کا باوقعت ہونا اس پر اس سے بھی ظاہر ہوگیا تھا کہ ایک جانور اسے لاتا ہے وہ ہوشیاری اور احتیاط سے پہنچاتا ہے ۔ سامنے با ادب رکھ کر ایک طرف ہوجاتا ہے تو جان گئی تھی کہ یہ خط مکرم ہے اور کسی باعزت شخص کا بھیجا ہوا ہے ۔ پھر خط کامضمون سب کو پڑھ کرسنایا کہ یہ خط حضرت سلیمان کا ہے اور اس کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا ہوا ہے ساتھ ہی مسلمان ہونے اور تابع فرمان بننے کی دعوت ہے ۔ اب سب نے پہچان لیا کہ یہ اللہ کے پیغمبر کا دعوت نامہ ہے اور ہم میں سے کسی میں انکے مقابلے کی تاب وطاقت نہیں ۔ پھر خط کی بلاغت اختصار اور وضاحت نے سب کو حیران کردیا یہ مختصر سی عبارت بہت سی باتوں سے سوا ہے ۔ دریا کو کوزہ میں بند کردیا ہے علماء کرام کا مقولہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام سے پہلے کسی نے خط میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی ۔ ایک غریب اور ضعیف حدیث ابن ابنی حاتم میں ہے حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جارہا تھا کہ آپ نے فرمایا میں ایک ایسی آیت جانتا ہوں جو مجھ سے پہلے سلیمان بن داؤد علیہ السلام کے بعد کسی نبی پر نہیں اتری میں نے کہا حضور وہ کونسی آیت ہے؟ آپ نے فرمایا مسجد سے جانے سے پہلے ہی میں تجھے بتادوں گا اب آپ نکلنے لگے ایک پاؤں مسجد سے باہر رکھ بھی دیامیرے جی میں آیا شاید آپ بھول گئے ۔ اتنے میں آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ اور روایت میں ہے کہ جب تک یہ آیت نہیں اتری تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم دعا ( باسمک اللہم ) تحریر فرمایا کرتے تھے ۔ جب یہ آیت اتری آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنا شرع کیا خط کا مضمون صرف اسی قدر تھا کہ میرے سامنے سرکشی نہ کرو مجھے مجبور نہ کرو میری بات مان لو تکبر سے کام نہ لو موحد مخلص مطیع بن کر میرے پاس چلی آؤ ۔