Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اِذۡهَبْ بِّكِتٰبِىۡ هٰذَا فَاَلۡقِهۡ اِلَيۡهِمۡ ثُمَّ تَوَلَّ عَنۡهُمۡ فَانْظُرۡ مَاذَا يَرۡجِعُوۡنَ‏ ﴿28﴾
میرے اس خط کو لے جاکر انہیں دے دے پھر ان کے پاس سے ہٹ آ اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔
اذهب بكتبي هذا فالقه اليهم ثم تول عنهم فانظر ما ذا يرجعون
Take this letter of mine and deliver it to them. Then leave them and see what [answer] they will return."
Meray iss khat ko ley ja ker unhen dey dey phir unn kay pass say hut aa aur dekh kay woh kiya jawab detay hain.
میرا یہ خط لے کر جاؤ اور ان کے پاس ڈال دینا ، پھر الگ ہٹ جانا ، اور دیکھنا کہ وہ جواب میں کیا کرتے ہیں ۔
میرا یہ فرمان لے جان کر ان پر ڈال پھر ان سے الگ ہٹ کر دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ( ف٤٤ )
میرا یہ خط لےجا اور اسے ان لوگوں کی طرف ڈال دے ، پھر الگ ہٹ کر دیکھ کہ وہ کیا رد عمل ظاہر کرتے ہیں ۔ ”36
میرا یہ خط لے جا اور اسے ان کی طرف ڈال دے پھر ان کے پاس سے ہٹ آپھر دیکھ وہ کس بات کی طرف رجوع کرتے ہیں
سورة النمل حاشیہ نمبر : 36 یہاں پہنچ کر ہدہد کا کردار ختم ہوتا ہے ، عقلیت کے مدعی حضرات نے جس بنا پر اسے پرندہ ماننے سے انکار کیا ہے وہ یہ ہے کہ انہیں ایک پرندے کے اس قوت مشاہدہ ، قوت تمیز اور قوت بیان سے بہرہ ور ہونا بعید از امکان معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ملک پر گزرے اور یہ جان لے کہ یہ قوم سبا کا ملک ہے ، اس ملک کا نظام حکومت یہ ہے ، اس کی فرمانروا فلاں عورت ہے ، اس کا مذہب آفتاب پرستی ہے ، اس کو خدائے واحد کا پرستار ہونا چاہیے تھا ، مگر یہ گمراہی میں مبتلا ہے ، اور اپنے یہ سارے مشاہدات وہ آکر اس وضاحت کے ساتھ حضرت سلیمان سے بیان کردے ، انہی وجوہ سے کھلے کھلے ملاحدہ قرآن پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ کلیلہ و منہ کی سی باتیں کرتا ہے ، اور قرآن کی عقلی تفسیریں کرنے والے اس کے الفاظ کو ان کے صریح معنی سے پھیر کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ حضرت ہدہد تو سرے سے کوئی پرندے تھے ہی نہیں ، لیکن ان دونوں قسم کے حضرات کے پاس آخر وہ کیا ساٹنٹفک معلومات ہیں جن کی بنا پر وہ قطعیت کے ساتھ کہہ سکتے ہوں کہ حیوانات اور ان کی مختلف انواع اور پھر ان کے مختلف افراد کی قوتیں اور استعدادیں کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں ۔ جن چیزوں کو وہ معلومات سمجھتے ہیں وہ درحقیقت اس نہایت ناکافی مشاہدے سے اخذ کردہ نتائج ہیں جو محض سرسری طور پر حیوانات کی زندگی اور ان کے برتاؤ کا کیا گیا ہے ، انسان کو آج تک کسی یقینی ذریعہ سے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ مختلف قسم کے حیوانات کیا جانتے ہیں ، کیا کچھ دیکتے اور سنتے ہیں ، کیا محسوس کرتے ہیں ، کیا سوچتے اور سمجھتے ہیںِ اور ان میں سے ہر ایک کا ذہن کس طرح کام کرتا ہے ، پھر بھی جو تھوڑا بہت مشاہدہ مختلف انواع حیوانی زندگی کا کیا گیا ہے اس سے ان کی نہایت حیرت انگیز استعدادوں کا پتہ چلا ہے ، اب اگر اللہ تعالی جو ان حیوانات کا خالق ہے ہم کو یہ بتاتا ہے کہ اس نے اپنے ایک نبی کو جانوروں کی منطق سمجھنے اور ان سے کلام کرنے کی قابلیت عطا کی تھی ، اور اس نبی کے پاس سھائے جانے اور تربیت پانے سے ایک ہدہد اس قابل ہوگیا تھا کہ دوسرے ملکوں سے یہ کچھ مشاہدے کر کے آتا اور پیغمبر کو ان کی خبر دیتا تھا ، تو بجائے اس کے کہ ہم اللہ تعالی کے اس بیان کی روشنی میں حیوانات کے متعلق اپنے آج تک کے تھوڑے سے علم اور بہت سے قیاسات پر نظر ثانی کریں ، یہ کیا عقلمندی ہے کہ ہم اپنے اس ناکافی علم کو معیار قرار دے کر اللہ تعالی کے اس بیان کی تکذیب یا اس کی معنوی تحریف کرنے لگیں ۔