Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
قَالَتۡ يٰۤاَيُّهَا الۡمَلَؤُا اَفۡتُوۡنِىۡ فِىۡۤ اَمۡرِىۡ‌ۚ مَا كُنۡتُ قَاطِعَةً اَمۡرًا حَتّٰى تَشۡهَدُوۡنِ‏ ﴿32﴾
اس نے کہا اے میرے سردارو! تم میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو ۔ میں کسی امر کا قطعی فیصلہ جب تک تمہاری موجودگی اور رائے نہ ہو نہیں کیا کرتی ۔
قالت يايها الملؤا افتوني في امري ما كنت قاطعة امرا حتى تشهدون
She said, "O eminent ones, advise me in my affair. I would not decide a matter until you witness [for] me."
Uss ney kaha aey meray sardaro! Tum meray iss moamlay mein mujhay mashwara do. Mein kissi amar ka qataee faisla jab tak tumhari mojoodgi aur raye na ho nahi kiya kerti.
ملکہ نے کہا : قوم کے سردارو ! جو مسئلہ میرے سامنے آیا ہے اس میں مجھے فیصلہ کن مشورہ دور ۔ میں کسی مسئلے کا حتمی فیصلہ اس وقت تک نہیں کرتی جب تک تم میرے پاس موجود نہ ہو ۔
بولی اے سردارو! میرے اس معاملے میں مجھے رائے دو میں کسی معاملے میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک تم میرے پاس حاضر نہ ہو ،
﴿خط سنا کر﴾ ملکہ نے کہا ” اے سرداران قوم ، میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو ، میں کسی معاملہ کا فیصلہ تمہارے بغیر نہیں کرتی ہوں ۔ 38
۔ ( ملکہ نے ) کہا: اے دربار والو! تم مجھے میرے ( اس ) معاملہ میں مشورہ دو ، میں کسی کام کا قطعی فیصلہ کرنے والی نہیں ہوں یہاں تک کہ تم میرے پاس حاضر ہو کر ( اس اَمر کے موافق یا مخالف ) گواہی دو
سورة النمل حاشیہ نمبر : 38 اصل الفاظ ہیں حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ جب تک تکہ تم حاضر نہ ہو ، یا تم گواہ نہ ہو ، یعنی اہم معاملات میں فیصلہ کرتے وقت تم لوگوں کی موجودگی مریے نزدیک ضروری ہے ، اور یہ بھی کہ جو فیصلہ میں کروں اس کے صحیح ہونے کی تم شہادت دو ، اس سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ قوم سبا میں بادشاہی نظام تو تھا مگر وہ استبدادی نظام نہ تھا بلکہ فرماں روائے وقت معاملات کے فیصلے اعیان سلطنت کے مشورے سے کرتا تھا ۔
بلقیس کو خط ملا بلقیس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط انہیں سنا کر ان سے مشورہ طلب کیا اور کہا کہ تم جانتے ہو جب تک تم سے میں مشورہ نہ کرلوں ، تم موجود نہ ہو تو میں چونکہ کسی امر کا فیصلہ تنہا نہیں کرتی اس بارے میں بھی تم سے مشورہ طلب کرتی ہوں بتاؤ کیا رائے ہے؟ سب نے متفقہ طور پر جواب دیا کہ ہماری جنگی طاقت بہت کچھ ہے اور ہماری طاقت مسلم ہے ۔ اس طرف سے تو اطمینان ہے آگے جو آپ کا حکم ہو ۔ ہم تابعدراری کے لئے موجود ہیں ۔ اسمیں ایک حد تک سرداران لشکر نے لڑائی کی طرف اور مقابلے کی طرف رغبت دی تھی لیکن بلقیس چونکہ سمجھدار عاقبت اندیش تھی اور ہدہد کے ہاتھوں خط کے ملنے کا ایک کھلا معجزہ دیکھ چکی تھی یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ حضرت سلیمان کی طاقت کے مقابلے میں ، میں میرا لاؤ لشکر کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ اگر لڑائی کی نوبت آئی تو علاوہ ملک کی بربادی کے میں بھی سلامت نہ رہ سکوں گی اس لئے اس نے اپنے وزیروں اور مشیروں سے کہا بادشاہوں کا قاعدہ ہے کہ جب وہ کسی ملک کو فتح کرتے ہیں تو اسے برباد کر دیتے ہیں اجاڑ دیتے ہیں ۔ وہاں کے ذی عزت لوگوں کو ذلیل کردیتے ہیں ۔ سرداران لشکر اور حکمران شہر خصوصی طور پر انکی نگاہوں میں پڑھ جاتے ہیں ۔ جناب فاری نے اسکی تصدیق فرمائی کہ فی الواقع یہ صحیح ہے وہ ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ اس کی بعد اسنے جو ترکیب سوچی کہ ایک چال چلے اور حضرت سلیمان سے موافقت کر لے صلح کر لے وہ اس نے انکے سامنے پیش کی کہا کہ اس وقت تو میں ایک گراں بہا تحفہ انہیں بھیجتی ہوں دیکھتی ہوں اس کے بعد وہ میرے قاصدوں سے کیا فرماتے ہیں ۔ بہت ممکن ہے کہ وہ اسے قبول فرمالیں اور ہم آئندہ بھی انہیں یہ رقم بطور جزیے کے بھیجتے رہیں اور انہیں ہم پر چڑھائی کرنے کی ضرورت نہ پڑے ۔ اسلام کی قبولیت میں اسی طرح اس نے ہدیے بھیجنے میں نہاپت دانائی سے کام لیا ۔ وہ جانتی تھی کہ روپیہ پیسہ وہ چیز ہے فولاد کو بھی نرم کردیتا ہے ۔ نیز اسے یہ بھی آزمانا تھا کہ دیکھیں وہ ہمارے اس مال کو قبول کرتے ہیں یا نہیں ۔ ؟ اگر قبول کر لیا تو سمجھ لو کہ وہ ایک بادشاہ ہیں پھر ان سے مقابلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر واپس کردیا تو انکی نبوت میں کوئی شک نہیں پھر مقابلہ سراسر بےسود بلکہ مضر ہے ۔