Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰهِ وَسَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِيۡنَ اصۡطَفٰىؕ ءٰۤللّٰهُ خَيۡرٌ اَمَّا يُشۡرِكُوۡنَؕ‏ ﴿59﴾
تو کہہ دے کہ تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہے کیا اللہ تعالٰی بہتر ہے یا وہ جنہیں یہ لوگ شریک ٹھہرا رہے ہیں ۔
قل الحمد لله و سلم على عباده الذين اصطفى الله خير اما يشركون
Say, [O Muhammad], "Praise be to Allah , and peace upon His servants whom He has chosen. Is Allah better or what they associate with Him?"
Tu keh dey kay tamam tareef Allah hi kay liye hai aur uss kay bar-gazeeda bandon per salam hai. Kiya Allah Taalaa behtar hai ya woh jinhen yeh log shareek thera rahey hain.
۔ ( اے پیغمبر ) کہو : تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور سلام ہو اس کے ان بندوں پر جن کو اس نے منتخب فرمایا ہے ( ٢٩ ) بتاؤ کیا اللہ بہتر ہے یا وہ جن کو ان لوگوں نے اللہ کی خدائی میں شریک بنا رکھا ہے ؟
تم کہو سب خوبیاں اللہ کو ( ف۹۹ ) اور سلام اس کے چنے ہوئے بندے پر ( ف۱۰۰ ) کیا اللہ بہتر ( ف۱۰۱ ) یا ان کے ساختہ شریک ( ف۱۰۲ )
۔ ( اے نبی 71 ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہو ، حمد ہے اللہ کے لیے اور سلام اس کے ان بندوں پر جنہیں اس نے برگزیدہ کیا ۔ ﴿ان سے پوچھو﴾ اللہ بہتر ہے یا وہ معبود جنہیں یہ لوگ اس کا شریک بنا رہے ہیں؟ 72
فرما دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور اس کے منتخب ( برگزیدہ ) بندوں پر سلامتی ہو ، کیا اللہ ہی بہتر ہے یا وہ ( معبودانِ باطلہ ) جنہیں یہ لوگ ( اس کا ) شریک ٹھہراتے ہیں
سورة النمل حاشیہ نمبر : 71 یہاں سے دوسرا خطبہ شروع ہوتا ہے اور یہ فقرہ اس کی تمہید ہے ، اس تمہید سے یہ سبق سکھایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی تقریر کا آغاز کس طرح کرنا چاہیے ۔ اسی بنا پر صحیح اسلامی ذہنیت رکھنے والے لوگ ہمیشہ سے اپنی تقریریں اللہ کی حمد اور اس کے نیک بندوں پر سلام سے شروع کرتے رہے ہیں ۔ مگر اب اسے ملائیت سمجھا جانے لگا ہے اور موجودہ زمانے کے مسلمان مقررین اس سے کلام کی ابتدا کی ابتدا کرنے کا تصور تک اپنے ذہن میں نہیں رکھتے یا پھر اس میں شرم محسوس کرتے ہیں ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 72 بظاہر یہ سوال بڑا عجیب معلوم ہوتا ہے کہ اللہ بہتر ہے یا یہ معبودان باطل حقیقت کے اعتبار سے تو معبودان باطل میں سرے سے کسی خیر کا سوال ہی نہیں ہے کہ اللہ سے ان کا مقابلہ کیا جائے ، رہے مشرکین تو وہ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ تھے کہ اللہ کا اور ان کے معبودوں کا کوئی مقابلہ ہے ، لیکن یہ سوال ان کے سامنے اس لیے رکھا گیا کہ وہ اپنی غلطی پر متنبہ ہوں ، ظاہر ہے کہ کوئی شخص دنیا میں کوئی کام بھی اس وقت تک نہیں کرتا جب تک وہ اپنے نزدیک اس میں کسی بھلائی یا فائدے کا خیال نہ رکھتا ہو ۔ اب اگر یہ مشرک لوگ اللہ کی عبادت کے بجائے ان معبودوں کی عبادت کرتے تھے ، اور اللہ کو چھوڑ کر ان سے اپنی حاجتیں طلب کرتے اور ان کے آگے نذر و نیاز پیش کرتے تھے ، تو یہ اس کے بغیر بالکل بے معنی تھا کہ ان معبودوں میں کوئی خیر ہو ، اسی بنا پر ان کے سامنے صاف الفاظ میں یہ سوال رکھا گیا کہ بتاؤ اللہ بہتر ہے یا تمہارے یہ معبود؟ کیونکہ اس دو ٹوک سوال کا سامنا کرنے کی ان میں ہمت نہ تھی ، ان میں سے کوئی کٹے سے کٹا مشرک بھی یہ کہنے کی جرأت نہ کرسکتا تھا کہ ہمارے معبود بہتر ہیں ، اور یہ مان لینے کے بعد کہ اللہ بہتر ہے ، ان کے پورے دین کی بنیاد ڈھے جاتی تھی ، اس لیے کہ پھر یہ بات سراسر نامعقول قرار پاتی تھی کہ بہتر کو چھوڑ کر بدتر کو اختیار کیا جائے ۔ اس طرح قرآن نے تقریر کے پہلے ہی فقرے میں مخالفین کو بے بس کردیا ، اس کے بعد اب پے در پے اللہ تعالی کی قدرت اور تخلیق کے ایک ایک کرشمے کی طرف انگلی اٹھا کر پوچھا جاتا ہے کہ بتاؤ یہ کام کس کے ہیں؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بھی ان کاموں میں شریک ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر یہ دوسرے آخر کیا ہیں کہ انہیں تم نے معبود بنا رکھا ہے ۔ روایات میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اس آیت کی تلاوت فرماتے تو فورا اس کے جواب میں فرماتے بل اللہ خیر و ابقی واجل و اکرم ، نہیں بلکہ اللہ ہی بہتر ہے اور وہی باقی رہنے والا اور بزرگ و برتر ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ کہیں کہ ساری تعریفوں کے لائق فقط اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ اسی نے اپنے بندوں کو اپنی بیشمار نعمتیں عطا فرما رکھی ہیں ۔ اس کی صفتیں عالی ہیں اس کے نام بلند اور پاک ہیں اور حکم ہوتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے برگذیدہ بندوں پر سلام بھیجیں جیسے انبیاء اور رسول ۔ حمدوصلوٰۃ کا ساتھ ہی ذکر آیت ( سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ ١٨٠؀ۚ ) 37- الصافات:180 ) ، میں بھی ہے ۔ ان کے تابعداروں کے بچالینے اور مخالفین کے غارت کردینے کی نعمت بیان فرما کر اپنی تعریفیں کرنے والے اور اپنے نیک بندوں پر سلام بھیجنے کا حکم دیا ۔ اس کے بعد بطور سوال کے مشرکوں کے اس فعل پر انکار کیا کہ وہ اللہ عزوجل کے ساتھ اس کی عبادت میں دوسروں کو شریک ٹھہرا رہے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ پاک اور بری ہے ۔