Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
قُلۡ سِيۡرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ فَانْظُرُوۡا كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الۡمُجۡرِمِيۡنَ‏ ﴿69﴾
کہہ دیجئے کہ زمین میں چل پھر کر ذرا دیکھو تو سہی کہ گنہگاروں کا کیسا انجام ہوا ؟
قل سيروا في الارض فانظروا كيف كان عاقبة المجرمين
Say, [O Muhammad], "Travel through the land and observe how was the end of the criminals."
Keh dijiye kay zamin mein chal phir ker zara dekho to sahi kay gunehgaron ka kaisa anjam hua?
کہو کہ : ذرا زمین میں سفر کر کے دیکھو کہ مجرموں کا انجام کیسا ہوا ہے ۔
تم فرماؤ زمین میں چل کر دیکھو ، کیسا ہوا نجام مجرموں کا ( ف۱۲۳ )
کہو ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ مجرموں کا کیا انجام ہو چکا ہے ۔ 86
فرما دیجئے: تم زمین میں سیر و سیاحت کرو پھر دیکھو مجرموں کا انجام کیسا ہوا 
سورة النمل حاشیہ نمبر : 86 اس مختصر سے فقرے میں آخرت کی دو زبردست دلیلیں بھی ہیں اور نصیحت بھی ۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ دنیا کی جن قوموں نے بھی آخرت کو نظر انداز کیا ہے وہ مجرم بنے بغیر نہیں رہ سکی ہیں ، وہ غیر ذمہ دار بن کر رہیں ، انہوں نے ظلم و ستم ڈھائے ، وہ فسق و فجور میں غرق ہوگئیں ، اور اخلاق کی تباہی نے آخر کار ان کو برباد کرکے چھوڑا ۔ یہ تاریخ انسانی کا مسلسل تجربہ ، جس پر زمین میں ہر طرف تباہ شدہ قوموں کے آثار شہادت دے رہے ہیں ، صاف ظاہر کرتا ہے کہ آخرت کے ماننے اور نہ ماننے کا نہایت گہرا تعلق انسانی رویے کی صحت اور عدم صحت سے ہے ، اس کو مانا جائے تو رویہ درست رہتا ہے ، نہ مانا جائے تو رویہ غلط ہوجاتا ہے ، یہ اس امر کی صریح دلیل ہے کہ اس کا ماننا حقیقت کے مطابق ہے ، اسی لیے اس کے ماننے سے انسانی زندگی ٹھیک ڈگر پر چلتی ہے ، اور اس کا نہ ماننا حقیقت کے خلاف ہے ، اسی وجہ سے یہ گاڑی پٹڑی سے اتر جاتی ہے ۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ تاریخ کے اس طویل تجربے میں مجرم بن جانے والی قوموں کا مسلسل تباہ ہونا اس حقیقت پر صاف دلالت کررہا ہے کہ یہ کائنات بے شعور طاقتوں کی اندھی بہری فرمانروائی نہیں ہے بلکہ یہ ایک حکیمانہ نظام ہے جس کے اندر ایک اٹل قانون مکافات کام کر رہا ہے ۔ جس کی حکومت انسانی قوموں کے ساتھ سراسر اخلاقی بنیادوں پر معاملہ کر رہی ہے ، جس میں کسی قوم کو بدکرداریوں کی کھلی چھوٹ نہیں دی جاتی کہ ایک دفعہ عروج پا جانے کے بعد وہ ابدالآباد تک داد عیش دیتی رہے اور ظلم و ستم کے ڈنکے بجائے چلی جائے ۔ بلکہ ایک خاص حد کو پہنچ کر ایک زبردست ہاتھ آگے بڑھتا ہے اور اس کو بام عروج سے گرا کر قعر مذلت میں پھینک دیتا ہے ، اس حقیقت کو جو شخص سمجھ لے وہ کبھی اس امر میں شک نہیں کرسکتا کہ یہی قانون مکافات اس دنیوی زندگی کے بعد ایک دوسرے عالم کا تقاضا کرتا ہے جہاں افراد کا اور قوموں کا اور بحیثیت مجموعہ پوری نوع انسانی کا انصاف چکایا جائے ۔ کیونکہ محض ایک ظالم قوم کے تباہ ہوجانے سے تو انصاف کے سارے تقاضے پورے نہیں ہوگئے ، اس سے ان مظلوموں کی تو کوئی دادرسی نہیں ہوئی جن کی لاشوں پر انہوں نے اپنی عظمت کا قصر بنایا تھا ، اس سے ان ظالموں کو تو کوئی سزا نہیں ملی جو تباہی کے آنے سے پہلے مزے اڑا کر جاچکے تھے ، اس سے ان بدکاروں پر بھی کوئی مواخذہ نہیں ہوا جو پشت درپشت اپنے بعد آنے والی نسلوں کے لیے گمراہیوں اور بد اخلاقیوں کی میراث چھوڑتے چلے گئے تھے ، دنیا میں عذاب بھیج کر تو صرف ان کی آخری نسل کے مزید ظلم کا سلسلہ توڑ دیا گیا ۔ ابھی عدالت کا اصل کام تو ہوا ہی نہیں کہ ہر ظالم کو اس کے کیے کا بدلہ دیا جائے اور ہر مظلوم کے نقصان کی تلافی کی جائے ، اور ان سب لوگوں کو انعام دیا جائے جو بدی کے اس طوفان میں راستی پر قائم اور اصلاح کے لیے کوشاں رہے اور عمر بھر اس راہ میں اذیتیں سہتے رہے ۔ یہ سب لازما کسی وقت ہونا چاہءے ، کیونکہ دنیا میں قانون مکافات کی مسلسل کار فرمائی کائنات کی فرمانروا حکومت کا یہ مزاج اور طریقہ کار صاف بتا رہی ہے کہ وہ انسانی اعمال کو ان کی اخلاقی قدر کے لحاظ سے تولتی اور ان کی جزا و سزا دیتی ہے ۔ ان دو دلیلوں کے ساتھ اس آیت میں نصیحت کا پہلو یہ ہے کہ پچھلے مجرموں کا انجام دیکھ کر اس سے سبق لو اور انکار آخرت کے اسی احمقانہ عقیدے پر اصرار نہ کیے چلے جاؤ جس نے انہیں مجرم بنا کر چھوڑا تھا ۔