Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اِنَّمَاۤ اُمِرۡتُ اَنۡ اَعۡبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الۡبَلۡدَةِ الَّذِىۡ حَرَّمَهَا وَلَهٗ كُلُّ شَىۡءٍ‌ وَّاُمِرۡتُ اَنۡ اَكُوۡنَ مِنَ الۡمُسۡلِمِيۡنَۙ‏ ﴿91﴾
مجھے تو بس یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے پروردگار کی عبادت کرتا رہوں جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے جس کی ملکیت ہرچیز ہے اور مجھے یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ میں فرماں برداروں میں ہو جاؤں ۔
انما امرت ان اعبد رب هذه البلدة الذي حرمها و له كل شيء و امرت ان اكون من المسلمين
[Say, O Muhammad], "I have only been commanded to worship the Lord of this city, who made it sacred and to whom [belongs] all things. And I am commanded to be of the Muslims [those who submit to Allah ]
Mujhay to bus yehi hukum diya gaya hai kay mein iss shehar kay perwerdigar ki ibadat kerta rahon jiss ney issay hurmat wala banaya hai jiss ki milkiyat her cheez hai aur mujhay yeh bhi farmaya gaya hai kay mein farmanbardaron mein say ho jaon.
۔ ( اے پیغمبر ! ان سے کہہ دو کہ : ) مجھے تو یہی حکم ملا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی عبادت کروں جس نے اس شہر کو حرمت بخشی ہے ، اور ہر چیز کا مالک وہی ہے ، اور مجھے یہ حکم ملا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں شامل رہوں ۔
مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ پوجوں اس شہر کے رب کو ( ف۱۵۹ ) جس نے اسے حرمت والا کیا ہے ( ف۱٦۰ ) اور سب کچھ اسی کا ہے ، اور مجھے حکم ہوا ہے کہ فرمانبرداروں میں ہوں ،
﴿اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ان سے کہو﴾ ” مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اس شہر کے رب کی بندگی کروں جس نے اسے حرم بنایا ہے اور جو ہر چیز کا مالک ہے ۔ 110 مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلم بن کر رہوں
۔ ( آپ ان سے فرما دیجئے کہ ) مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اس شہرِ ( مکّہ ) کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے عزت و حُرمت والا بنایا ہے اور ہر چیز اُسی کی ( مِلک ) ہے اور مجھے ( یہ ) حکم ( بھی ) دیا گیا ہے کہ میں ( اللہ کے ) فرمانبرداروں میں رہوں
سورة النمل حاشیہ نمبر : 110 یہ سورۃ چونکہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جبکہ اسلام کی دعوت ابھی صرف مکہ معظمہ تک محدود تھی اور مخاطب صرف اس شہر کے لوگ تھے ، اس لیے فرمایا مجھے اس شہر کے رب کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ اس رب کی خصوصیت یہ بیان کی گئی کہ اس نے ا سے حرم بنایا ہے ۔ اس سے کفار مکہ مکہ کو متنبہ کرنا مقصود ہے کہ جس خدا کا تم پر یہ احسان عظیم ہے کہ اس نے عرب کی انتہائی بدامنی اور فساد و خونریزی سے لبریز سرزمین میں تمہارے اس شہر کو امن کا گہوارہ بنا رکھا ہے ، اور جس کے فضل سے تمہارا یہ شہر پورے ملک عرب کا مرکز عقیدت بنا ہوا ہے تم اس کی ناشکری کرنا چاہو تو کرتے رہو ، مگر مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کا شکر گزار بندہ بنوں اور اسی کے آگے سر نیاز جھکاؤں ، تم جنہیں معبود بنائے بیٹھے ہو ان میں سے کسی کی یہ طاقت نہ تھی کہ اس شہر کو حرم بنا دیتا اور عرب کے جنگجو اور غارت گر قبیلوں سے اس کا احترام کراسکتا ۔ میرے لیے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ اصل محسن کو چھوڑ کر ان کے آگے جھکوں جن کا کوئی ذرہ برابر بھی احسان مجھ پر نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ کو حکم اعلان اللہ تعالیٰ اپنے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ آپ لوگوں میں اعلان کردیں کہ میں اس شہر مکہ کے رب کی عبادت کا اور اس کی فرمانبرداری کا مامور ہوں ۔ جیسے ارشاد ہے کہ اے لوگو! اگر تمہیں میرے دین میں شک ہے تو ہوا کرے میں تو جن کی تم عبادت کررہے ہو ان کی عبادت ہرگز نہیں کرونگا ۔ میں اسی اللہ کا عابد ہوں جو تمہاری زندگی موت کا مالک ہے ۔ یہاں مکہ شریف کی طرف ربوبیت کی اضافت صرف بزرگی اور شرافت کے اظہار کے لئے ہے جیسے فرمایا آیت ( فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ Ǽ۝ۙ ) 106-قریش:3 ) انہیں چاہیے کہ اس شہر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں اوروں کی بھوک کے وقت آسودہ اور اوروں کے خوف کے وقت بےخوف کررکھاہے ۔ یہاں فرمایا کہ اس شہر کو حرمت وعزت والا اس نے بنایا ہے ۔ جیسے بخاری ومسلم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن فرمایا کہ یہ شہر اسی وقت سے باحرمت ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کو پیدا کیا ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حرمت دینے سے حرمت والا ہی رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے نہ اس کے کانٹے کاٹے جائیں نہ اس کا شکار خوف زدہ کیا جائے نہ اس میں گری پڑی چیز کسی کی اٹھای جائے ہاں جو پہچان کر مالک کو پہنچانا چاہے اس کے لئے جائز ہے ۔ اس کی گھاس بھی نہ کاٹی جائے ۔ یہ حدیث بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں کے ساتھ مروی ہے جیسے کہ احکام کی کتابوں میں تفصیل سے موجود ہے ۔ وللہ الحمد ۔ پھر اس خاص چیز کی ملکیت ثابت کرکے اپنی عام ملکیت کا ذکر فرماتا ہے کہ ہر چیز کا رب اور مالک وہی ہے ۔ اس کے سوا نہ کوئی مالک نہ معبود ۔ اور مجھے یہ حکم بھی ملاہے کہ میں موحد مخلص مطیع اور فرمانبردار ہو کر رہوں ۔ اور مجھے یہ بھی فرمایا گیا کہ میں لوگوں کو اللہ کا کلام پڑھ کر سناؤں ۔ جیسے فرمان ہے کہ ہم یہ آیتیں اور یہ حکمت والا ذکر تیرے سامنے تلاوت کرتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے ہم تجھے موسیٰ اور فرعون کا صحیح واقعہ سناتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ میں اللہ کامبلغ ہوں میں تمہیں جگا رہا ہوں ۔ تمہیں ڈرا رہا ہوں ۔ اگر میری مان کر راہ راست پر آؤگے تو اپنا بھلاکروگے ۔ اور اگر میری نہ مانی تو میں اپنے تبلیغ کے فرض کو ادا کرکے سبکدوش ہوگیا ہوں ۔ اگلے رسولوں نے بھی یہی کیا تھا اللہ کا کلام پہنچاکر اپنا دامن پاک کرلیا ۔ جیسے فرمان ہے تجھ پر صرف پہنچادینا ہے حساب ہمارے ذمہ ہے ۔ اور فرمایا تو صرف ڈرا دینے والا ہے اور ہر چیز پر وکیل اللہ ہی ہے ۔ اللہ کے لئے تعریف ہے جو بندوں کی بےخبری میں انہیں عذاب نہیں کرتا بلکہ پہلے اپنا پیغام پہنچاتا ہے اپنی حجت تمام کرتا ہے بھلا برا سمجھا دیتا ہے ۔ ہم تمہیں ایسی آیتیں دکھائیں گے کہ تم خود قائل ہوجاؤ ۔ جیسے فرمایا آیت ( سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۭ اَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ 53؀ ) 41- فصلت:53 ) یعنی ہم انہیں خود ان کے نفسوں میں اور ان کے اردگرد ایسی نشانیاں دکھائیں گے کہ جن سے ان پر حق ظاہر ہوجائے ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے کرتوت سے غافل نہیں بلکہ اسکا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے دیکھو لوگو! اللہ کو کسی چیز سے اپنے عمل سے غافل نہ جاننا ۔ وہ ایک ایک مچھر سے ایک ایک پتنگے سے اور ایک ایک ذرے سے باخبر ہے ۔ عمربن عبدالعزیز سے مروی ہے کہ اگر وہ غافل ہوتا تو انسان کے قدموں کے نشان سے جنہیں ہوا مٹادیتی ہے غفلت کر جاتا لیکن وہ ان نشانات کا بھی حافظ ہے اور عالم ہے ۔ امام احمد بن حنبل اکثر ان دو شعروں کو پڑھتے تھے جو یا تو آپ کے ہیں یا کسی اور کے شعر ( اذا ماخلوت الدھر یوما فلا تقل خلوت ولکن قل علی رقیب ) یعنی جب تو کسی وقت بھی خلوت اور تنہائی میں ہو تو اپنے آپ کو تنہا اور اکیلا نہ سمجھنا بلکہ اپنے اللہ کو وہاں حاضر ناظر جاننا ۔ وہ ایک ساعت بھی کسی سے غافل نہیں نہ کوئی مخفی اور پوشیدہ چیز اس کے علم سے باہر ہے ۔ اللہ کے فضل وکرم سے سورۃ نمل کی تفسیر ختم ہوئی ۔