Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
اِنَّ فِرۡعَوۡنَ عَلَا فِى الۡاَرۡضِ وَجَعَلَ اَهۡلَهَا شِيَـعًا يَّسۡتَضۡعِفُ طَآٮِٕفَةً مِّنۡهُمۡ يُذَبِّحُ اَبۡنَآءَهُمۡ وَيَسۡتَحۡىٖ نِسَآءَهُمۡ‌ ؕ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الۡمُفۡسِدِيۡنَ‏ ﴿4﴾
یقیناً فرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان میں سے ایک فرقہ کو کمزور کررکھا تھا اور ان کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا بیشک و شبہ وہ تھا ہی مفسدوں میں سے ۔
ان فرعون علا في الارض و جعل اهلها شيعا يستضعف طاىفة منهم يذبح ابناءهم و يستحي نساءهم انه كان من المفسدين
Indeed, Pharaoh exalted himself in the land and made its people into factions, oppressing a sector among them, slaughtering their [newborn] sons and keeping their females alive. Indeed, he was of the corrupters.
Yaqeenan firaon ney zamin mein sirkashi ker rakhi thi aur wahan kay logon ko giroh giroh bana rakha tha aur unn mein say aik firqay ko kamzor ker rakha tha aur unn kay larkon ko to zibah ker dalta tha aur unn ki larkiyon ko zinda chor deta tha. Be-shak-o-shuba woh tha hi mufisdon mein say.
واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی اختیار کر رکھی تھی ، اور اس نے وہاں کے باشندوں کو الگ الگ گروہوں میں تقسیم کردیا تھا جن میں سے ایک گروہ کو اس نے اتنا دبا کر رکھا ہوا تھا کہ ان کے بیٹوں کو ذبح کردیتا ۔ ( ١ ) اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو فساد پھیلایا کرتے ہیں ۔
بیشک فرعون نے زمین میں غلبہ پایا تھا ( ف۳ ) اور اس کے لوگوں کو اپنا تابع بنایا ان میں ایک گروہ کو ( ف٤ ) کمزور دیکھتا ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا ( ف۵ ) بیشک وہ فسادی تھا ،
واقعہ یہ کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی 3 اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا ۔ 4 ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا ، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا ۔ 5 فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا ۔
بیشک فرعون زمین میں سرکش و متکبّر ( یعنی آمرِ مطلق ) ہوگیا تھا اور اس نے اپنے ( ملک کے ) باشندوں کو ( مختلف ) فرقوں ( اور گروہوں ) میں بانٹ دیا تھا اس نے ان میں سے ایک گروہ ( یعنی بنی اسرائیل کے عوام ) کو کمزور کردیا تھا کہ ان کے لڑکوں کو ( ان کے مستقبل کی طاقت کچلنے کے لئے ) ذبح کر ڈالتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا ( تاکہ مَردوں کے بغیر ان کی تعداد بڑھے اور ان میں اخلاقی بے راہ روی کا اضافہ ہو ) ، بیشک وہ فساد انگیز لوگوں میں سے تھا
سورة القصص حاشیہ نمبر : 3 اصل میں لفظ علا فی الارض استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے زمین میں سر اٹھایا ، باغیانہ روش اختیار کی ، اپنی اصل حیثیت یعنی بندگی کے مقام سے اٹھ کر خود مختاری اور خداوندی کا روپ دھار لیا ، ماتحت بن کر رہنے کے بجائے بالادست بن بیٹھا ، اور جبار و متکبر بن کر ظلم ڈھانے لگا ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 4 یعنی اس کی حکومت کا قاعدہ یہ نہ تھا کہ قانون کی نگاہ میں ملک کے سب باشندے یکساں ہوں اور سب کو برابر کے حقوق دیے جائیں ، بلکہ اس نے تمدن و سیاست کا یہ طرز اختیار کیا کہ ملک کے باشنوں کو گروہوں میں تقسیم کیا جائے ، کسی کو مراعات و امتیازات دے کر حکمراں گروہ ٹھہرایا جائے اور کسی کو محکوم بنا کر یا دبایا اور پیسا اور لوٹا جائے ۔ یہاں کسی کو یہ شبہ لاحق نہ ہو کہ اسلامی حکومت بھی تو مسلم اور ذمی کے درمیان تفریق کرتی ہے اور ان کے حقوق و اختیارات ہر حیثیت سے یکساں نہیں رکھتی ۔ یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ اس فرق کی بنیاد فرعونی تفریق کے برعکس نسل ، رنگ ، زبان ، یا طبقاتی امتیاز پر نہیں ہے بلکہ اصول اور مسلک کے اختلاف پر ہے ، اسلامی نظام حکومت میں ذمیوں اور مسلمانوں کے درمیان قانونی حقوق میں قطعا کوئی فرق نہیں ہے ، تمام تر فرق صرف سیاسی حقوق میں ہے ، اور اس فرق کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک اصولی حکومت میں حکمراں جماعت صرف وہی ہوسکتی ہے جو حکومت کے بنیادی اصولوں کی حامی ہو ، اس جماعت میں ہر وہ شخص داخل ہوسکتا ہے جو اس کے اصولوں کو مان لے اور ہر وہ شخص اس سے خارج ہوجاتا ہے جو ان اصولوں کا منکر ہوجائے ۔ آخر اس تفریق میں اور اس فرعونی طرز تفریق میں کیا وجہ مشابہت ہے جس کی بنا پر محکوم نسل کا کوئی فرد کبھی حکمراں گروہ میں شامل نہیں ہوسکتا ، جس میں محکوم نسل کے لوگوں کو سیاسی اور قانونی حقوق تو درکنار بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں ہوتے ، حتی کہ زندہ رہنے کا حق بھی ان سے چھین لیا جاتا ہے ، جس میں محکوموں کے لیے کسی حق کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہوتی ، تمام فوائد منافع اور حسنات و درجات صرف حکمران قوم کے لیے مختص ہوتے ہیں اور یہ مخصوص حقوق صرف اسی شخص کو حاصل ہوتے ہیں جو حکمراں قوم میں پیدا ہوجائے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 5 بائیبل میں اس کی جو تشریح ملتی ہے وہ یہ ہے : تب مصر میں ایک نیا بادشاہ ہوا جو یوسف کو نہیں جانتا تھا ، اور اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ دیکھو اسرائیلی ہم سے زیادہ اور قوی ہوگئے ہیں سو آؤ ہم ان کے ساتھ حکمت سے پیش آئیں ایسا نہ ہو کہ جب وہ اور زیادہ ہوجائیں اور اس وقت جنگ چھڑ جائے تو وہ ہمارے دشمنوں سے مل کر ہم سے لڑیں اور ملک سے نکل جائیں ۔ اس لیے انہوں نے ان پر بیگار لینے والے مقرر کیے جو ان سے سخٹ کام لے کر انہیں ستائیں ۔ سو انہوں نے فرعون کے لیے ذخیرے کے شہر پتوم اور غمیس بنائے ۔ اور مصریوں نے بنی اسرائیل پر تشدد کر کے ان سے کام کرایا اور انہوں نے ان سے سخت محنت سے گارا اور اینٹ بنوا بنوا کر اور کھیت میں ہر قسم کی خدمت لیکر ان کی زندگی تلخ کی ، ان کی سب خدمتیں جو وہ ان سے کراتے تھے تشدد کی تھیں ۔ تب مصر کے بادشاہ نے عبرانی دائیوں سے باتیں کیں اور کہا کہ جب عبرانی ( یعنی اسرائیلی ) عورتوں کے تم بچہ جناؤ اور ان کو پتھر کی بیٹھکوں پر بیٹھی دیکھو تو اگر بیٹا ہو تو اسے مار ڈالنا اور اگر بیٹی ہو تو وہ جیتی رہے ۔ ( خروج ، باب1 ۔ آیت 8 ۔ 16 ) اس سے معلوم ہوا کہ کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا دور گزر جانے کے بعد مصر میں ایک قوم پرستانہ انقلاب ہوا تھا اور قبطیوں کے ہاتھ میں جب دوبارہ اقتدار آیا تو نئی قوم پرست حکومت نے بنی اسرائیل کا زور توڑنے کی پوری کوشش کی تھی ۔ اس سلسلے میں صرف اتنے ہی پر اکتفا نہ کیا گیا کہ اسرائیلیوں کو ذلیل و خوار کیا جاتا اور انہیں ادنی درجے کی خدمات کے لیے مخصوص کرلیا جاتا ، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ بنی اسرائیل کی تعداد گھٹائی جائے اور ان کے لڑکوں کو قتل کر کے صرف ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے تاکہ رفتہ رفتہ ان کی عورتیں قبطیوں کے تصرف میں آتی جائین اور ان سے اسرائیلی کے بجائے قبطی نسل پیدا ہو ۔ تلمود اس کی مزید تفصیل یہ دیتی ہے کہ حضرت یوسف کی وفات پر ایک صدی سے کچھ زیادہ مدت گزر جانے کے بعد یہ انقلاب ہوا تھا ۔ وہ بتاتی ہے کہ نئی قوم پرست حکومت نے پہلے تو بنی اسرائیل کو ان کی زرخیز زمینوں اور ان کے مکانات اور جائدادوں سے محروم کیا ۔ پھر انہیں حکومت کے تمام مناصب سے بے دخل کیا ، اس کے بعد بھی جب قبطی حکمرانوں نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل اور ان کے ہم مذہب مصری کافی طاقتور ہیں تو انہوں نے اسرائیلیوں کو ذلیل و خوار کرنا شروع کیا اور ان سے سخت محنت کے کام قلیل معاوضوں پر یا بلا معاوضہ لینے لگے ۔ یہ تفسیر ہے قرآن کے اس بیان کی کہ مصر کی آبادی کے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا ، اور سورہ بقرہ میں اللہ تعالی کے اس ارشاد کی کہ آل فرعون بنی اسرائیل کو سخت عذاب دیتے تھے ۔ ( يَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ ) مگر بائیبل اور قرآن دونوں اس ذکر سے خالی ہیں کہ فرعون سے کسی نجومی نے یہ کہا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں فرعونی اقتدار کا تختہ الٹ جائے گا اور اسی خطرے کو روکنے کے لیے فرعون نے اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا ۔ یا فرعون نے کوئی خوفناک خواب دیکھا تھا اور اس کی تعبیر یہ دی گئی تھی کہ ایک لڑکا بنی اسرائیل میں ایسا پیدا ہونے والا ہے ۔ یہ افسانہ تلمود اور دوسری اسرائیلی روایات سے ہمارے مفسرین نے نقل کیا ہے ( ملاحظہ ہو جیوش انسائیکلوپیڈیا مضمون موسی اور ( The Talmud Selections Page 124. 23 )