Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
وَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰٓى اُمِّ مُوۡسٰٓى اَنۡ اَرۡضِعِيۡهِ‌ۚ فَاِذَا خِفۡتِ عَلَيۡهِ فَاَ لۡقِيۡهِ فِى الۡيَمِّ وَلَا تَخَافِىۡ وَلَا تَحۡزَنِىۡۚ اِنَّا رَآدُّوۡهُ اِلَيۡكِ وَجٰعِلُوۡهُ مِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَ‏ ﴿7﴾
ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کی ماں کو وحی کی کہ اسے دودھ پلاتی رہ اور جب تجھے اس کی نسبت کوئی خوف معلوم ہو تو اسے دریا میں بہا دینا اور کوئی ڈر خوف یا رنج غم نہ کرنا ہم یقیناً اسے تیری طرف لوٹانے والے ہیں اور اسے اپنے پیغمبروں میں بنانے والے ہیں ۔
و اوحينا الى ام موسى ان ارضعيه فاذا خفت عليه فالقيه في اليم و لا تخافي و لا تحزني انا رادوه اليك و جاعلوه من المرسلين
And We inspired to the mother of Moses, "Suckle him; but when you fear for him, cast him into the river and do not fear and do not grieve. Indeed, We will return him to you and will make him [one] of the messengers."
Hum ney musa ( alh-e-salam ) ki maa ko wahee ki kay issay doodh pilati reh aur jab tujhay iss ki nisbat koi khof maloom hoto issay darya mein baha dena aur koi darr khof ya ranj ghum na kerna hum yaqeenan issay tumhari taraf lotaney walay hain aur issay apnay payghumbaron mein bananey walay hain.
اور ہم نے موسیٰ کی والدہ کو الہام کیا کہ : تم اس ( بچے ) کو دودھ پلاؤ ، پھر جب تمہیں اس کے بارے میں کوئی خطرہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دینا ، اور ڈرنا نہیں ، اور نہ صدمہ کرنا ، یقین رکھو ہم اسے واپس تمہارے پاس پہنچا کر رہیں گے ، اور اس کو پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر بنائیں گے ۔
اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو الہام فرمایا ( ف۱۰ ) کہ اسے دودھ پلا ( ف۱۱ ) پھر جب تجھے اس سے اندیشہ ہو ( ف۱۲ ) تو اسے دریا میں ڈال دے اور نہ ڈر ( ف۱۳ ) اور نہ غم کر ( ف۱٤ ) بیشک ہم اسے تیری طرف پھیر لائیں اور اسے رسول بنائیں گے ( ف۱۵ )
ہم 9 نے موسی ( علیہ السلام ) کی ماں کو اشارہ کیا کہ ” اس کو دودھ پلا ، پھر جب تجھے اس کی جان کا خطرہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور کچھ خوف اور غم نہ کر ، ہم اسے تیرے ہی پاس واپس لے آئیں گے اور اس کو پیغمبروں میں شامل کریں گے ۔ ” 10
اور ہم نے موسٰی ( علیہ السلام ) کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم انہیں دودھ پلاتی رہو ، پھر جب تمہیں ان پر ( قتل کردیئے جانے کا ) اندیشہ ہو جائے تو انہیں دریا میں ڈال دینا اور نہ تم ( اس صورتِ حال سے ) خوفزدہ ہونا اور نہ رنجیدہ ہونا ، بیشک ہم انہیں تمہاری طرف واپس لوٹانے والے ہیں اور انہیں رسولوں میں ( شامل ) کرنے والے ہیں ۔
سورة القصص حاشیہ نمبر : 9 بیچ میں یہ ذکر چھوڑ دیا گیا ہے کہ انہی حالات میں ایک اسرائیلی والدین کے ہاں وہ بچہ پیدا ہوگیا جس کو دنیا نے موسی علیہ السلام کے نام سے جانا ۔ بائیبل اور تلمود کے بیان کے مطابق یہ خاندان حضرت یعقوب کے بیٹھے لاوی کی اولاد میں سے تھا ۔ حضرت موسی کے والد کا نام ان دونوں کتابوں میں عمرام بتایا گیا ہے ، قرآن اسی کا تلفظ عمران کرتا ہے ، موسی علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ان کے ہاں دو بچے ہوچکے تھے ، سب سے بڑی لڑکی مریم ( Miriam ) نامی تھیں جن کا ذکر آگے آرہا ہے ۔ ان سے چھوٹے حضرت ہارون تھے ، غالبا یہ فیصلہ کہ بنی اسرائیل کے ہاں جو بیٹھا پیدا ہو اسے قتل کردیا جائے ، حضرت ہارون کی پیدائش کے زمانے میں نہیں ہوا تھا ، اس لیے وہ بچ گئے ، پھر یہ قانون جاری ہوا اور اس خوفناک زمانے میں تیسرے بچے کی پیدائش ہوئی ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 10 یعنی پیدا ہوتے ہی دریا میں ڈال دینے کا حکم نہ تھا ، بلکہ ارشاد یہ ہوا کہ جب تک خطرہ نہ ہو بچے کو دودھ پلاتی رہو ۔ جب راز فاش ہوتا نظر آئے اور اندیشہ ہو کہ بچے کی آواز سن کر یا اور کسی طرح دشمنوں کو اس کی پیدائش کا علم ہوجائے گا ۔ یا خود بنی اسرائیل ہی میں سے کوئی کمینہ آدمی مخبری کر بیٹھے گا تو بے خوف و خطر اسے ایک تابوت میں رکھ کر دریا میں ڈال دینا ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ پیدائش کے بعد تین مہینے تک حضرت موسی کی والدہ ان کو چپھائے رہیں ، تلمود اس پر اضافہ کرتی ہے کہ فرعون کی حکومت نے اس زمانے میں جاسوس عورتیں چھوڑ رکھی تھیں جو اسرائیلی گھروں میں اپنے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے لے جاتی تھیں اور وہاں کسی نہ کسی طرح ان بچوں کو رلا دیتی تھیں تاکہا گر کسی اسرائیلی نے اپنے ہاں کوئی بچہ چھپا رکھا ہو تو وہ بھی دوسرے بچے کی آواز سن کر رونے لگے ۔ اس نئے طرز جاسوسی سے حضرت موسی کی والدہ پریشان ہوگئیں اور انہوں نے اپنے بچے کی جان بچانے کے لیے پیدائش کے تین مہینے بعد اسے دریا میں ڈال دیا ۔ اس حد تک ان دونوں کتابوں کا بیان قرآن کے مطابق ہے ، اور دریا میں ڈالنے کی کیفیت بھی انہوں نے وہی بتائی ہے جو قرآن میں بتائی گئی ہے ، سورہ طہ میں ارشاد ہوا ہے اقْذِفِيْهِ فِي التَّابُوْتِ فَاقْذِفِيْهِ فِي الْيَمِّ ، بچے کو ایک تابوب میں رکھ کر دریا میں ڈال دے ۔ اسی کی تائید بائیبل اور تلمود بھی کرتی ہیں ۔ ان کا بیان ہے کہ حضرت موسی کی والدہ نے سرکنڈوں کا ایک ٹوکرا بنایا اور اسے چکنی مٹی اور رال سے لیپ کر پانی سے محفوظ کردیا ، پھر اس میں حضرت موسی کو لٹا کر دریائے نیل میں ڈال دیا ۔ لیکن سب سے بڑی بات جو قرآن میں بیان کی گئی ہے اس کا کوئی ذکر اسرائیلی روایات میں نہیں ہے ، یعنی یہ کہ حضرت موسی کی والدہ نے یہ کام اللہ تعالی کے اشارے پر کیا تھا اور اللہ تعالی نے پہلے ہی ان کو یہ اطمینان دلا دیا تھا کہ اس طریقے پر عمل کرنے میں نہ صرف یہ کہ تمہارے بچے کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے ، بلکہ ہم بچے تمہارے پاس ہی پلٹا لائیں گے ، اور یہ کہ تمہارا یہ بچہ آگے چل کر ہمارا رسول ہونے والا ہے ۔
بچوں کا قتل اور بنی اسرائیل مروی ہے کہ جب بنی اسرائیل کے ہزارہا بچے قتل ہوچکے تو قبطیوں کو اندیشہ ہوا کہ اگر بنو اسرائیل ختم ہوگئے توجتنے ذلیل کام اور بےہودہ خدمتیں حکومت ان سے لے رہیں ہیں کہیں ہم سے نہ لینے لگیں ۔ تو دربار میں میٹنگ ہوئی اور یہ رائے قرار پائی کہ ایک سال مار ڈالے جائیں اور دوسرے سال قتل نہ کئے جائیں ۔ حضرت ہارون اس سال تولد ہوئے جس سال بچوں کو قتل نہ کیا جاتا تھا لیکن حضرت موسیٰ اس سال پیدا ہوئے جس سال بنی اسرائیل کے لڑکے عام طور پر تہ تیغ ہو رہے تھے ۔ عورتیں گشت کرتی رہتی تھی اور حاملہ عورتوں کا خیال رکھتی تھی ۔ ان کے نام لکھ لیے جاتے تھے ۔ وضع حمل کے وقت یہ عورتیں پہنچ جاتی تھی اگر لڑکی ہوئی تو واپس چلی جاتی تھی اور اگر لڑکا ہوا تو فورا جلادوں کو خبر کردیتی تھی ۔ یہ لوگ تیز چھرے لئے اسی وقت آجاتے تھے اور ماں باپ کے سامنے اسی وقت ان کے بچوں کوٹکڑے ٹکڑے کرکے چلے جاتے تھے ۔ حضرت موسیٰ کی والدہ کا جب حمل ہوا تو عام حمل کی طرح اس کا پتا نہ چلا اور جو عورتیں اس کام پر مامور تھی اور جتنی دائیاں آتی تھی کسی کو حمل کا پتہ نہ چلا ۔ یہاں تک کہ حضرت موسیٰ تولد بھی ہوگئے آپ کی والدہ سخت پریشان ہونے لگی اور ہر وقت خوفزدہ رہنے لگیں اور اپنے بچے سے محبت بھی اتنی تھی کہ کسی ماں کو اپنے بچے سے اتنی نہ ہوگی ۔ ایک ماں پر ہی کیا موقوف اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کا چہرہ ہی ایسا بنایا تھا ۔ کہ جس کی نظر پڑ جاتی تھی اس کے دل میں ان کی محبت بیٹھ جاتی تھی ۔ جیسے جناب باری تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت ( وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ ڬ وَلِتُصْنَعَ عَلٰي عَيْنِيْ 39؀ۘ ) 20-طه:39 ) میں نے اپنی خصوصی محبت سے تمہیں نوازا ۔ پس جب کہ والدہ موسیٰ ہر وقت کبیدہ خاطر ، خوفزدہ اور رنجیدہ رہنے لگیں تو اللہ نے ان کے دل میں خیال ڈالا کہ اسے دودھ پلاتی رہے اور خوف کے موقعہ پر انہیں دریائے نیل میں بہادے جس کے کنارے پر ہی آپ کا مکان تھا ۔ چنانچہ یہی کیا کہ ایک پیٹی کی وضع کا صندوق بنالیا اس میں حضرت موسیٰ کو رکھ دیا دودھ پلادیا کرتیں اور اس میں سلادیا کرتیں ۔ جہاں کوئی ایسا ڈراؤنا موقعہ آیاتو اس صندوق کو دریا میں بہادیتیں اور ایک ڈوری سے اسے باندھ رکھا تھا خوف ٹل جانے کے بعد اسے کھینچ لیتیں ۔ ایک مرتبہ ایک ایسا شخص گھر میں آنے لگا جس سے آپ کی والدہ صاحبہ کو بہت دہشت ہوئی دوڑ کر بچے کو صندوق میں لٹاکر دریا میں بہادیا اور جلدی اور گبھراہٹ میں ڈوری باندھنی بھول گئیں صندوق پانی کی موجوں کے ساتھ زور سے بہنے لگا اور فرعون کے محل کے پاس گزرا تو لونڈیوں نے اسے اٹھالیا اور فرعون کی بیوی کے پاس لے گئیں راستے میں انہوں نے اسے ڈر کے مارے کھولا نہ تھا کہ کہیں تہمت ان پر نہ لگ جائے جب فرعون کی بیوی کے پاس اسے کھولا گیا تو دیکھا کہ اس میں تو ایک نہایت خوبصورت نورانی چہرے والا صحیح سالم بچہ لیٹا ہوا ہے جسے دیکھتے ہی ان کا دل مہر محبت سے بھر گیا اور اس بچہ کی پیاری شکل دل میں گھر کر گئی ۔ اس میں بھی رب کی مصلحت تھی کہ فرعون کی بیوی کو راہ راست دکھائے اور فرعون کے سامنے اس کا ڈر لائے اور اسے اور اس کے غرور کو ڈھائے تو فرماتا ہے کہ آل فرعون نے اس صندوق کو اٹھالیا اور انجام کار وہ ان کی دشمنی اور ان کے رنج وملال کا باعث ہوا ۔ محمد بن اسحاق وغیرہ فرماتے ہیں لیکون کا لام لام عاقبت ہے لام تعلیل نہیں ۔ اس لئے کہ ان کا ارادہ نہ تھا بظاہر یہ ٹھیک بھی معلوم ہوتا ہے لیکن معنی کو دیکھتے ہوئے لام کو لام تعلیل سمجھنے میں بھی کوئی حرج نہیں اتا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس صندوقچے کا اٹھا نے والا اس لئے بنایا تھا کہ اللہ اسے ان کے لئے دشمن بنادے اور ان کے رنج وغم کا باعث بنائے بلکہ اس میں ایک لطف یہ بھی ہے کہ جس سے وہ بچنا چاہتے تھے وہ ان کے سر چڑھ گیا ۔ اس لئے اس کے بعد ہی فرمایا گیا کہ فرعون ہامان اور ان کے ساتھی خطاکار تھے ۔ روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے قدریہ کو جو لوگ کہ تقدیر کے منکر ہیں ایک خط میں لکھا کہ موسیٰ کے سابق علم میں فرعون کے دشمن اور اس کے لئے باعث رنج وغم تھے جیسے قرآن کی اس آیت سے ثابت ہے لیکن تم کہتے ہو کہ فرعون چاہتا تو موسیٰ اس کے مددگار اور دوست ہوتے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اس بچے کو دیکھتے ہی فرعون بدکا کہ ایسا نہ ہو کسی اسرائیلی عورت نے اسے پھینک دیا ہو اور کہیں یہ وہی نہ ہو جس کے قتل کرنے کے لئے ہزاروں بچوں کو فنا کرچکا ہوں ۔ یہ سوچ کر اس نے انہیں بھی قتل کرنا چاہا لیکن اس کی بیوی حضرت آسیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کی سفارش کی ۔ فرعون کو اس کے ارادے سے روکا اور کہا اسے قتل نہ کیجیئے بہت ممکن ہے کہ یہ آپ کی اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہو مگر فرعون نے جواب دیا کہ تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو لیکن مجھے تو آنکھوں کی ٹھنڈک کی ضروت نہیں ۔ اللہ کی شان دیکھئے کہ یہی ہوا کہ حضرت آسیہ کو اللہ نے اپنا دین نصیب فرمایا اور حضرت موسیٰ کی وجہ سے انہوں نے ہدایت پائی اور اس متکبر کو اللہ نے اپنے نبی کے ہاتھوں ہلاک کیا ۔ نسائی وغیرہ کے حوالے سے سورۃ طہ کی تفسیر میں حدیث فتون میں یہ قصہ پورا بیان ہوچکا ہے ۔ حضرت آسیہ فرماتی ہے شاید ہمیں نفع پہنچائے ۔ ان کی امید اللہ نے پوری کی دنیا میں حضرت موسیٰ ان کی ہدایت کا ذریعہ بنے اور آخرت میں جنت میں جانے کا ۔ اور کہتی ہیں کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم اسے اپنا بچہ بنالیں ۔ ان کی کوئی اولاد نہ تھی تو چاہا کہ حضرت موسیٰ کو متبنی بنالیں ۔ ان میں سے کسی کو شعور نہ تھا کہ قدرت کس طرح پوشیدہ اپنا ارادہ پوراکر رہی ہے ۔