Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
فَرَدَدۡنٰهُ اِلٰٓى اُمِّهٖ كَىۡ تَقَرَّ عَيۡنُهَا وَلَا تَحۡزَنَ وَلِتَعۡلَمَ اَنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّلٰـكِنَّ اَكۡثَرَهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿13﴾
پس ہم نے اسے اس کی ماں کی طرف واپس پہنچایا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور آزردہ خاطر نہ ہو اور جان لے کہ اللہ تعالٰی کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔
فرددنه الى امه كي تقر عينها و لا تحزن و لتعلم ان وعد الله حق و لكن اكثرهم لا يعلمون
So We restored him to his mother that she might be content and not grieve and that she would know that the promise of Allah is true. But most of the people do not know.
Pus hum ney ussay uss ki maa ki taraf wapis phonchaya takay uss ki aankhen thandi rahen aur aazardah khatir na ho aur jaan ley kay Allah Taalaa ka wada sacha hai lekin aksar log nahi jantay.
اس طرح ہم نے موسیٰ کو ان کی ماں کے پاس لوٹا دیا ، تاکہ ان کی آنکھ ٹھنڈی رہے ، اور وہ غمگین نہ ہوں ، اور تاکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔
تو ہم نے اسے اس کی ماں کی طرف پھیرا کہ ماں کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور غم نہ کھائے اور جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ( ف۳۰ )
اس طرح ہم 16 موسی ( علیہ السلام ) کو اس کی ماں کے پاس پلٹا لائے تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غمگین نہ ہو اور جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا تھا ، 17 مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے ۔ ” ؏١
پس ہم نے موسٰی ( علیہ السلام ) کو ( یوں ) ان کی والدہ کے پاس لوٹا دیا تاکہ ان کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور تاکہ وہ ( یقین سے ) جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
سورة القصص حاشیہ نمبر : 16 بائیبل اور تلمود سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا نام موسی فرعون کے گھر میں رکھا گیا تھا ۔ یہ عبرانی زبان کا نہیں بلکہ قبطی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں میں نے اسے پانی سے نکالا قدیم مصری زبان سے بھی حضرت موسی کے نام کی یہ تخریج صحیح ثابت ہوتی ہے ۔ اس زبان میں مو پانی کو کہتے تھے اور اوشے کا مطلب تھا بچایا ہوا ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 17 اور اللہ کی اس حکیمانہ تدبیر کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ حضرت موسی فی الواقع فرعون کے شاہزادے نہ بن سکے بلکہ اپنے ہی ماں باپ اور بہن بھائیوں میں پرورش پاکر انہیں اپنی اصلیت اچھی طرح معلوم ہوگئی ۔ اپنی خاندانی روایات سے اپنے آبائی مذہب سے ، اور اپنی قوم سے ان کا رشتہ نہ کٹ سکا ، وہ آل فرعون کے ایک فرد بننے کے بجائے اپنے دلی جذبات اور خیالات کے اعتبار سے پوری طرح بنی اسرائیل کے ایک فرد بن کر اٹھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث میں فرماتے ہیں: مثل الذی یعمل و یحتسب فی صنعتہ الخیر کمثل ام موسی ترضع ولدھا و تاخذ اجرھا ۔ جو شخص اپنی روزی کمانے کے لیے کام کرے اور اس کام میں اللہ کی خوشنودی پیش نظر رکھے اس کی مثال حضرت موسی کی والدہ کی سی ہے کہ انہوں نے اپنے ہی بیٹے کو دودھ پلایا اور اس کی اجرت بھی پائی ۔ یعنی ایسا شخص اگرچہ اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کام کرتا ہے لیکن چونکہ وہ اللہ تعالی کی خوشنودی پیش نظر رکھ کر ایمانداری سے کام کرتا ہے ، جس کے ساتھ بھی معاملہ کرتا ہے اس کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کرتا ہے ، اور رزق حلال سے اپنے نفس اور اپنے بال بچوں کی پرورش اللہ کی عبادت سمجھتے ہوئے کرتا ہے ، اس لیے وہ اپنی روزی کمانے پر بھی اللہ کے ہاں اجر کا مستحق ہوتا ہے ۔ گویا روزی بھی کمائی اور اللہ سے اجر و ثواب بھی پایا ۔